پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان کے 33حلقوں میں انتخابات سے حصہ لینےکے بعد اعلان سے یوٹرن کے بعد صداقت علی عباسی کے امیدوار ہونے کے زیادہ امکانا ت ہیں
مری ( راجہ افضال سلیم عباسی سے ) سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور مستعفی ایم این اے پروفیسر صداقت علی عباسی کے آبائی حلقے این اے 57میں ضمنی انتخابات کے اعلان کے بعد ابھی تک دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے امیدوار فائنل نہ ہوسکے ۔پہلے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی جانب سے ضمنی انتخابات میں 33حلقوں سے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان ہوا تھا جن میں این اے 57بھی شامل تھا مگر اب عمران خان کی جانب سے اپنے سابق اعلان سے یوٹرن لینےاور بعض حلقوں سے خود حصہ نہ لینے کی وجہ سے اب زیادہ امکانات ہیں کہ اس حلقے سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ہرانے والے پروفیسر صداقت علی عباسی اس حلقے سے ایم این اے کے امیدوار ہوسکتے ہیں ،مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کے اپنی پارٹی کی قیادت کےساتھ کچھ معاملات پر اختلافات چل رہے ہیں جن میں مریم نواز کو سینئر نائب صدر بنانا ہے ۔اس سے قبل شاہد خاقان عباسی پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر تھے ۔اس پرشاہد خاقان عباسی نے احتجاجا اپنے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔پارٹی سے وابستگی کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے صرف پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا ہے وہ پارٹی کے ساتھ بدستور رہیں گے اور پارٹی کا حصہ ہیں مگر جس طرح کے سیاسی حالات بن رہے ہیں اس سے امکان ہے کہ مستقبل میں شاید انکو پارٹی کو بھی خیر آباد کہنا پڑ جائے مگراس وقت تک وہ پارٹی کا حصہ ہیں اور پارٹی قائد میاں نواز شریف نے پاکستان میں موجود قیادت کو ہدایت کی ہے کہ وہ شاہد خاقان عباسی کے تحفظات دور کریں ۔شاہد خاقان عباسی کے این اے 57سے ہارنے کے بعد پارٹی نے ان کو لاہور کی نشست سے کامیاب کروایا تھا ۔اب بعض زرائع یہ دعوی کررہے ہیں کہ این اے 57سے شاہد خاقان عباسی کے پرسنل سیکرٹری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے نائب صدر حافظ عثمان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ہونگے ۔حافظ عثمان عباسی عرصہ دراز سے سیاست میں متحرک ہیں اور شاہد خاقان عباسی کے قریبی سمجھے جاتے ہیں ۔مسلم لیگ کے بعض حلقوں کی جانب سے حافظ عثمان کے بطور امیدوار ایم این اے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ۔دوسری جانب سے مستعفی ایم این اے پروفیسر صداقت علی عباسی کے کریڈ ٹ پر بہت سے کام ہیں جن میں مری کو ضلع بنانے کے لیے اہم کردار ادا کرنا ، کوہسار یونیورسٹی کا قیام ،ساملی سینیٹوریم میں زچہ بچہ وارڈ کے لیے جدوجہد ، ٹورزم ہائی وے ، مختلف سڑکوں کاافتتاح شامل ہے ۔جماعت اسلامی کی جانب سے سفیان عباسی کے امیدوار ہونے کے کافی امکانات ہیں ،سفیان عباسی بھی پچھلے کچھ عرصہ سے حلقے میں متحرک ہیں ،2002 میں شاہد خاقان عباسی کو ہرانے میں سفیان عباسی کو بھی اہم کردار تھا جس کی وجہ سے غلام مرتضیٰ) ستی کامیاب ہوئے تھے ۔مسلم لیگ (ن) کو اس سے قبل کے تمام انتخابات میں سابق جنرل سیکرٹری پنجاب راجہ اشفاق سرور کی صورت میں ایسی شخصیت میسر تھی جو قومی اور صوبائی دونوں نشستوں پر مسلم لیگ کی جیت میں اہم کردار ادا کرتے ، 2002 اور 2018 کے قومی انتخابات کے علاوہ مسلم لیگ (ن) یہاں سے ہمیشہ جیتتی رہی مگر اب وہ شخصیت مسلم لیگ (ن) کو میسر نہیں جس کی ۔وجہ سے بھی پارٹی کو یہاں پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے