Inkishaf News

خوبصورت لوگوں کا خوبصورت بیروٹ ضلع ایبٹ آباد

تحریر و تحقیق :اسامہ علی عباسی
مؤرخ الاسلامیہ و علم الانساب

ضلع مری سے ملحقہ تحصیل ایبٹ آباد کے سرکل بکوٹ ہزارہ ریجن کی سو فیصد اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی یونین کونسل بیروٹ، قدرت کا ایک انمول تحفہ و دلفریب مناظر و معتدل موسم کے حسین امتزاج سے سرشار ایک خوبصورت وادی میرا آبائی گاؤں ہے۔

مشرق و مغرب سے پہاڑوں کے بیچ گھری اس خوبصورت وادی میں دلفریب مناظر، معتدل موسم اور قدرت کے حسین نظاروں کی بہترین جھلک دکھائی دیتی ہے جہاں صبح اٹھتے ہی اہلیان بیروٹ کوہ مشک پوری پر پڑتی سورج کی چمکتی شعاعوں کو دیکھتے ہیں تو وہیں مری اور ایوبیہ کے دلفریب مناظر اس وادی میں سموئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں دریائے نیلم جہلم کا گنگناتا پانی تیز موجوں اور طیش و غضب میں کوہالہ میں شور مچاتے ہوئے اس وادی گلزار کے پاس سے گزرتا ہے تو وہیِں مشرق میں جنت نظیر آزاد کشمیر چمنکوٹ کی بلند و بالا چوٹیاں اس وادی کو اپنے دامن میں گھیرے ہوئے نظر آتی ہیں۔ محل و وقوع کے لحاظ سے یونین کونسل بیروٹ کے مشرق میں دھیرکوٹ، آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں کوہ مشک پوری و گلیات کا بلند و بالا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جبکہ بیروٹ کے شمال میں بکوٹ اور قدیمی کوہالہ پل سے ملحقہ ضلع مظفرآباد آزاد کشمیر کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جبکہ جنوب میں ملکہ کوہسار مری واقع ہے۔ گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیروٹ کا علاقہ قدرت کا وہ واحد جنکشن ہے جو بیک وقت صوبہ پنجاب ، صوبہ خیبر پختونخواہ اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی ارضیات میں رابطہ کا زریعہ ہے۔ جغرافیائی مسافت کے لحاظ سے بیروٹ کا فاصلہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد سے قریبا 100 کلومیٹر شمال مشرق اور ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر جبکہ ملکہ کوہسار مری سے قریبا 30 کلومیٹر شاہراہ کشمیر کی جانب بالترتیب 45 منٹ کی مسافت پر موجود ہے۔ بیروٹ کے مضافات میں واقع کوھالہ پل کو خطہ کوہسار مری اور مظفرآباد کشمیر کے مابین ایک جنکشن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے کیونکہ دونوں علاقہ جات سے کوھالہ کا فاصلہ اور مسافت یکساں اور ایک جیسی ہی یے۔

بیروٹ کی تاریخ و رسوم و رواج کے متعلق معروف کالم نگار عبیداللہ علوی مرحوم نے اپنی کئی تاریخی آرٹیکلز و مضامین میں بہت ساری چیزوں کو لکھا ہے جسکے مطابق *بیروٹ* قدیمی سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معانی *پہلوان* کے ہیں، یونین کونسل بیروٹ “بیروٹ کلاں” اور “بیروٹ خورد” جسکو مغلیہ دور حکومت میں فارسی زبان “کلاں” اور “خورد” کی اصطلاح دی گئی جس کے معانی “بڑے” اور “چھوٹے” کے ہیں، بیروٹ کلاں کے معانی “بڑا پہلوان” جبکہ بیروٹ خورد کا معانی “چھوٹے پہلوان” کے ہیں، یونین کونسل بیروٹ میں بیروٹ کلاں و خورد کے علاوہ کہو شرقی و کہو غربی کا وسیع و عریض رقبہ و اراضیات بھی اسکی حدود میں شامل ہیں اسکے علاوہ بیروٹ کی حدود ضلع مری کے آخری گاؤں دیول سے لیکر یونین کونسل بیروٹ کے آخری گاؤں عباسیاں، کوہالہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تاریخ میں لفظ *بیروٹ* کے متعلق دوسری روایت میں “بیروٹ” کا لفظ دراصل “بی – روٹ” قدیم پہاڑی زبان کے لفظ سے نکلا ہے جسکے معانی “بیس روٹیوں” کے ہیں۔

بیروٹ کی سرزمین، زمانہ قدیم میں ایک اہم تجارتی و لشکری گزرگاہ رہی یے، خطہ کوہسار مری اور ہزارہ سے کشمیر کی جانب تمام راستے اسی قدیم گزرگاہ سے گزرتے تھے. زمانہ قدیم میں بیروٹ کے قدیمی قبائل میں یہاں کیٹھوال اور کڑلال قوم سن 1400 عیسوی سے قبل یہاّں آباد تھے جسکو چمنکوٹ سے ڈھونڈ عباسی قبیلے کے بزرگ وزیر ملتان و سردار پونچھ کشمیر عماد الملک سردار طالب خان عباسی المعروف تولک شاہ المتوفی 1491 عیسوی نے کشمیر کے بادشاہ شاہ زین العابدین کے دور حکومت میں گگھڑ حکمران سلطان حمد خان کے والد کے ساتھ معاہدہ کی صورت میں سرکل بکوٹ اور مری کے علاقوں کو کیٹھوال اور کڑلال قبائل کے عمل دخل سے آزاد کروایا جب کیٹھوال اور کڑلال قبائل نے گگھڑوں کے خلاف اعلان بغاوت اور خراج دینے سے انکار کیا۔ اسکے بعد گگھڑ سلطان کی جانب سے ان علاقوں کی مکمل خودمختاری اور خراج وصولی کی سند عماد الملک طالب خان عباسی المعروف تولک شاہ کو دی گئی جہاں آج بھی ان علاقہ جات میں ڈھونڈ عباسی قبیلے کے بزرگ تولک شاہ کی اولاد ہی آباد ہے۔ عماد الملک سردار طالب خان عباسی المعروف تولک شاہ نے راجگان پونچھ کی دختر نیک سے شادی کی جن سے انکے تین فرزندان ملک قاسم خان عباسی المعروف چاند خان، ملک عبدالرحمان خان عباسی المعروف رتن خان اور ملک اعظم خان عباسی الشھید المعروف ہلال خان ہوئے جنکے نام والد کیطرف سے اسلامی اور نھنیال راجگان کیطرف سے ہندی رکھے گئے جو آج بھی انہیں ناموں کیساتھ مشہور و معروف ہیں اور انکا تزکرہ عباسیان ہند از مفتی نجم الدین ثمرقندی سن اشاعت 1819ء میں بھی درج ملتا ہے۔ وادی بیروٹ آج سے تقریبا 500 سال پہلے بمطابق 1500 عیسوی کو قدیمی قبائل کی علاقہ بدری کے بعد عماد الملک طالب خان عباسی المعروف تولک خان کے چھوٹے بیٹے ملک عبدالرحمان عباسی المعروف دادا رتن خان عباسی رح نے چمنکوٹ، آزاد کشمیر سے ہجرت فرماکر “عباسیاں، بیروٹ” میں سکونت پزیر ہوکر آباد کیا جو اپنے دور کے ایک بڑے جاگیردار اور عہدہ *ملک* ہونے کے باوجود وقت کے کامل ولی اور درویش صفت شخص بھی تھے اور انکا مزار چمنکوٹ آزاد کشمیر میں ہی مرجع خلائق یے۔ آپ بچپن میں نہایت وجیہہ و خوبصورت تھے جسکی بناء پر نھیال کیطرف سے آپکا نام *رتن* رکھا گیا جو کہ ہندی زبان کا لفظ ہے جسکے معانی *ستارے* کے ہیں۔ ملک عبدالرحمان خان عباسی المعروف رتن خان نے چمنکوٹ سے ہجرت کیبعد کوہالہ کے قریب گاؤں دیوان عباسیاں میں ہی مستقل سکونت اختیار کی جس سے آپکی اولاد کوہ مری و سرکل بکوٹ ہزارہ و گلیات کی طرف آباد ہوتی چلی گئی اور آپ ڈھونڈ عباسی قبیلے کی شاخ رتنال ڈھونڈ کے مورث اعلی ہیں۔

حضرت ملک عبدالرحمان المعروف دادا رتن خان عباسی رح کے والد عمادالملک سردار طالب خان عباسی المعروف تولک خان، شاہ حسین لنگاہ بادشاہ ملتان کے دور حکومت میں ریاست ملتان کے وزیر اعظم بھی رہے اور ملتان میں ہی بغاوت کے پیش نظر آپکو اپنے بیٹے ملک اعظم خان عباسی المعروف ہلال خان کے ساتھ شھید کردیا گیا تھا۔ کشمیر کے بادشاہ، شاہ زین العابدین کے دور حکومت میں آپ علاقہ پونچھ موجودہ ضلع باغ آزاد کشمیر اور مضافات علاقہ مری و سرکل بکوٹ ہزارہ کے علاقوں کے نگران و سردار اعلی بھی مقرر رہے اسی وجہ سے عماد الملک طالب خان عباسی المعروف تولک خان عباسی کو *سردار پونچھ* کہا جاتا تھا اور آپ چندال اور رتنال ڈھونڈ شاخوں کے حقیقی مورث اعلی ہیں بایں وجہ مستقبل میں آپکی اولاد ان علاقوں میں بااثر رہی جسکا تفصیلی زکر عباسیان ہند از مفتی نجم الدین ثمرقندی سن اشاعت 1819ء میں درج ملتا ہے۔ عماد الملک سردار طالب خان عباسی مشہور زمانہ سپہ سالار الجیش العرب محمود غزنوی و شمالی پاکستان کے عباسیوں کے جدامجد غازی الھند سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ المعروف سردار ضراب خان عباسی رح المتوفی 1072ء کی نسل سے ولی کامل اور ڈھونڈ عباسی قبیلے کے مورث اعلی حضرت شاہ ولی خان عباسی المعروف دادا ڈھونڈ خان عباسی رح جو کہ امام الاولیاء حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی رح کے مرید خاص تھے، انکی پشت سے سلسلہ چشتیہ قلندریہ کے عظیم بزرگ ولی کامل و مرد قلندر اعلی حضرت پیر نعمت شاہ عباسی، لقب دائمت بابا المعروف پیر دادا ڈھمٹ خان عباسی رح المتوفی 1400ء مزار بمقام دناہ شریف، گھوڑا گلی مری کے پڑپوتے تھے۔

یونین کونسل بیروٹ میں آبادی و اقوام کے لحاظ سے سن 1450ء میں ڈھونڈ عباسی کے عمل دخل کے بعد یہاں کا قدیمی و جاگیردار قبیلہ ڈھونڈ عباسی ہی ہے اور قریبا 90% سے زیادہ آبادی کا تعلق ڈھونڈ عباسی قبیلے سے ہی ہے۔ یونین کونسل بیروٹ میں ملک عبدالرحمان خان عباسی المعروف دادا رتن خان عباسی کے سب سے چھوٹے بیٹے ملک لہراسب خان عباسی کی اولاد آباد ہے جو کہ رتنال ڈھونڈ شاخ کے زیلی لہرآل قبیلے کے مورث اعلی ہیں۔ اسی نسبت سے سرکل بکوٹ ہزارہ کو لہرآل قبیلے کا گڑھ کہا جاتا ہے۔ یونین کونسل بیروٹ میں ملک لہراسب خان عباسی کے بیٹے پہلوان خان کے چار فرزندان کی اولاد ہی آباد ہے اسی نسبت سے بیروٹ کو چار بھائیوں کی اولاد کا گھر کہا جاتا ہے جن میں سردار چنگیز خان عباسی المعروف دادا چنگس خان، معظم خان عباسی المعروف مویو خان، نکودر خان اور خان محمد خان تھے جو کہ چنگسال، موہیوال، نکودرال اور خانال برداریوں کے مورث اعلی ہیں جو کہ یونین کونسل بیروٹ میں بیروٹ کلاں، بیروٹ خورد، کہو شرقی اور کہو غربی کے تمام علاقہ جات و ارضیات پر مالکانہ حقوق کیساتھ قدیمی آباد ہیں۔ مرکزی بیروٹ کلاں اور عباسیاں میں حاکم بیروٹ کلاں سردار چنگیز خان عباسی المعروف دادا چنگس خان کی اولاد آباد ہے جو عباسیاں سے آکر سنگرلالاں بیروٹ کلاں میں آباد ہوئے اور ڈھونڈ عباسی قبیلے کی چنگسال لہرآل شاخ کے مورث اعلی ہیں جسکی زیلی تین بڑی برادریاں سالم آل ، سیچوال اور سیدال ہیں جو کہ مرکزی بیروٹ کلاں سے لیکر بکوٹ تک آباد ہیں۔ علاقائی و تاریخی حوالے سے ڈھونڈ عباسی قبیلہ اس علاقے کا وارث ہے باقی تمام اقوام و قبائل ماضی قدیم میں بسلسلہ روزگار اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ان علاقوں میں بحیثیت مہاجر اقوام آباد ہوتی رہے جنکو ارضیات و رقبہ جات ماضی میں ڈھونڈ عباسی قبیلے کے سرداروں نے عنایت کیے۔

موجودہ دور کے لحاظ سے یونین کونسل بیروٹ کی آبادی 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو کہ تحصیل مری سے ملحقہ ضلع ایبٹ آباد کے سرکل بکوٹ ہزارہ کی سب سے گنجان آباد یونین کونسل ہے جو کہ تاریخی، مذہبی، تعلیمی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے خطہ سرکل بکوٹ ہزارہ میں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ بیروٹ میں پہلا انگریزی سکول سن 1904ء میں کھولا گیا جبکہ موجودہ یہاں پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں، کالجز، مساجد اور دینی درسگاہوں کی بہتات اس قدر یے کہ پورے سرکل بکوٹ میں سب سے زیادہ تعلیمی و دینی ادارہ جات وادی بیروٹ کلاں میں موجود ہیں۔ بیروٹ کلاں میں موجود بازار اس پورے خطہ کوہسار میں دیول بازار کے بعد گنجان ترین بازار ہے جسکی وجہ سے اہلیان بیروٹ بسلسلہ روزگار زیادہ تر کاروبار سے ہی منسلک ہیں اسکے علاوہ ٹرانسپورٹ کے شعبہ جات میں بیروٹ کلاں کا نام مکمل طور پر نمایاں نظر آتا ہے جسکی وجہ سے مری سے راولپنڈی ٹرانسپورٹ سروس کا مرکزی اڈہ ہوتریڑی چوک، بیروٹ کلاں میں ہی واقع ہے جس میں قریبا 70 سے زائد ٹیوٹا بسز اور کوسٹرز روزانہ کی بنیاد پر مسافروں کو منزل مقصود پر پہنچاتی ہیں۔

1857ء میں ملکہ کوہسار مری میں انگریز سامراج کے خلاف لڑی جانے والی جنگ آزادی میں، بیروٹ کلاں کے سردار لالی خان عباسی کا شمار، حریت پسندوں کے قائد سردار شیر باز خان عباسی کے قریبی رفقاء و حامیان میں ہوتا تھا، جسکی پاداش میں 1857ء میں انگریز حکومت نے سردار شیر باز خان عباسی کو انکے 8 بیٹوں اور بیشمار رفقاء کے ہمراہ ایجنسی گراؤنڈ، مری میں توپ کے آگے باندھ کر اڑایا اور اس طرح حریت پسندوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اسکے علاوہ خطہ بیروٹ کو اس خصوصی بغاوت اور روش کے پیش نظر ہی انگریز حکومت نے مری سے علیحدہ کیا حالانکہ قدرتی اور جغرافیائی لحاظ سے بیروٹ کلاں کا علاقہ خطہ کوہسار مری کا ہی ایک حصہ ہے۔ 1914ء سے 1919ء میں لڑی جانے والی پہلی جنگ عظیم میں بیروٹ سے 42 افراد نے شرکت کی جن میں سے 5 شہید بھی ہوئے جسکے اعتراف میں انگریز حکومت برطانیہ کیطرف سے سنگ مرمر کا فریم شدہ کتبہ ڈیوڈ اسٹارز کیساتھ بیروٹ کے سرکاری سکول میں نصب کیا گیا تھا۔ بیروٹ کی سرزمین ہمیشہ حریت پسندوں اور جنگجوؤں کی آماہ جگاہ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ 1948ء میں ڈوگرہ ریاست پونچھ کشمیر کے خلاف مجاہد اول و سابق صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان عباسی کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ آزادی کشمیر میں مجاہدین کا بیس کیمپ “عباسیاں، کوہالہ” رہا ہے اور جہاد کا پہلا تحریری و دستاویزی عہدنامہ جامع مسجد عباسیاں میں ہی بدست مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان عباسی لکھا گیا جسکا زکر بارہا مجاہد اول نے اپنی تصانیف و ویڈیو بیانات میں کیا ہے۔ اس زمرے میں اہلیان عباسیاں و بیروٹ کلاں نے سردار عبد القیوم خان عباسی کا بھرپور ساتھ دیا اور انکے شانہ بشانہ ڈوگرہ سکھ ریاست کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ اسکے علاوہ افغانستان روس کی جنگ میں مجاہدین کے کئی قافلے سرزمین بیروٹ سے بسلسلہ جہاد روانہ کیے گئے تاکہ دشمنان اسلام کو ناکوں چنے چبوائے جاسکیں۔ سرزمین بیروٹ دنیاوی اور دینی علوم کی درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے جسکی وجہ سے سرزمین بیروٹ میں سیاسی، مذہبی، سماجی، کاروباری، دنیاوی و دینی رنگ دیکھنے کا سلسلہ ملتا ہے گویا سرزمین سرزمین بیروٹ قوس و قزح کیطرح مختلف رنگ و روپ دھارے ہوئے ہے۔ بفضل تعالی بہادروں اور غیرت مندوں کی سرزمین ہے اور اس سرزمین بیروٹ نے ملک کے نامور صحافی، سیاستدان، بیوروکریٹس، فوجی افسران، پروفیسرز، وکلاء، ڈاکٹرز و انجینئرز پیدا کیے جنکا تزکرہ اگر شخصیات کے تعارف کے طور پر کیا جائے تو اس پر ایک علیحدہ کتابچہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ دور حاضر میں اس پرفتن دور اور نفسا نفسی کے عالم کے باوجود سرزمین بیروٹ غیر ضروری تعمیرات، شور و غل ہنگاموں اور کنکریٹ کا ڈھیر بننے سے محفوظ ہی ہے جہاں آج بھی موسم بہار میں پرندے چہچہاتے، فصل لہلہاتی اور میٹھے پانی کے چشمے بہتے ہیں، یہاں کے لوگ قدیمی رسوم و رواج اور ثقافت کے آج بھی امین ہیں، شادی بیاہ اور فوتگی کے موقع پر علاقائی رسوم رائج ہیں، جرگے اور نمبرداری کا انتِظام تاحال موجود ہے۔ ماضی قدیم میں یونین کونسل بیروٹ کو زرعی لحاظ سے زرخیر اور آبشاروں کی سرزمین کے نام سے بھی میں جانا اور پہچانا جاتا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں