Skip to content
کامران خان
‘جمہوریت‘ نہ تو انسانی سماج کی تشکیل کا بنیادی اصول ہے اور نہ ہی کسی حقیقی انقلابی پارٹی کا بنیادی نظریہ ہو سکتا ہے۔
‘جمہوریت’ صرف ایک طرز حکمرانی کا نام ہے جو زماں و مکاں کے ساتھ بدلتا ہے۔ جمہوریت سیاسی نظام کی تشکیل کے ڈھانچے کا نام ہے جسے سامراجی ممالک اور نام نہاد سکالرز سرمایہ داری نظام کے تسلسل کو جاری رکھنے اور عوام کو بے و قوف بنانے کی لیے استعمال کرتے ہیں۔کسی بھی سماج کی سیاسی تشکیل کیلیے بنیادی اصول برابری، معاشی مساوات، شہریوں کی ہمہ جہتی آزادیاں اور تمام تمام شعبہ ہائے حیات میں ان کی بلاتفریق برابر حیثیت کی یقین دہانی ہیں۔ اگر کوئی سماج ان اصولوں پر قائم ہو اور سیاسی تشکیل کی شکل کوئی بھی ہو تو وہ عوام کے اقتدار اعلی کو یقینی بناتا ہے۔
آج کے دور میں لفظ ‘جمہوریت’ کو ترقی اور آزادی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جو معاشرہ اس نام نہاد تصور کو قبول کرے اسے ترقی پسند سمجھا جاتا ہے اور جو سماج اسے قبول نہ کرے اسے ڈکٹیٹر شپ اور رجعت پسندی سےموسوم کیا جاتا ہے۔ بطور خاص دوسری جنگ عظیم کے بعد ‘جمہوریت’ کا ڈھول سامراجی ممالک نے اپنے گلے میں ڈال کر پیٹنا شروع کیا اور اسی نام کو استعمال کر کے دولت اور وسائل قدرت کا چند ہاتھوں میں احتکار و اکتناز یقینی بنایا، شہری آزادیاں سلب کیں، معاشی نابرابری کو قانونی حیثیت دی، سرمایہ داروں اور طاقتوروں کے گٹھ جوڑ کو اقتدار اعلی کا درجہ دیا اور ترقی کے ثمرات کو امیروں کے گھر کی لونڈی بنا دیا۔عوام کو بے وقوف بنانے کیلیے ہر چار یا پانچ سال کے بعد الیکشن کے نام پر سلیکشن کو عوام سے منظوری دلائی جاتی ہے اور دولت اور طاقت پر مخصوص افراد اور طاقتوں کو قابض رکھا جاتا ہے۔ انسانی برابری کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ہر شخص ووٹ دے سکتا ہے بلکہ اس حق سے پہلے انسان کو معاشی لحاظ سے آزاد اور خود مختار بنانا لازمی ہے۔ بصورت دیگر ووٹ دینے کا ڈرامہ یا الیکشن کا عمل آمریت کی بد ترین شکل بن جائے گی۔عام طور پر دیکھا یہ جاتا ہے کہ آپ کی ووٹ اس کی جیب میں ہوتی ہے جس کی جیب میں آپ کے وسائل ہوتے ہیں، آپ اپنے وسائل تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر اسی جیب میں اپنا ووٹ ڈالتے ہیں اور یہ عمل جاری رہتا ہے۔ ‘جمہوریت‘ کے نام پر مخصوص طبقہ انسانوں کی گردنوں کا مالک بنا رہتا ہے اور اس عمل سے عوام کا شعور بھی سلب ہو جاتا ہے۔ وہ اس لوری اور تسلی سے جی بہلاتا ہے اور اس پر مطمئن ہوتا ہے کہ جمہوریت کا سفر جاری ہے۔ جو طاقت اور طبقہ آپ کے سماج پر ہاوی ہوتا ہے اسی کا کنٹرول آپ کے نظام تعلیم، زرائع ابلاغ اور دیگر اداروں پر ہوتا ہے۔ خارجی دشمن سے آپ کو دانستہ طور پر ڈرا کر داخلی غلامی پر قناعت کی تعلیم دی جاتی ہے اور یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔چین، شمالی کوریا اور کیوبا وغیرہ کے سیاسی نظام کو آمریت کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ وہ سامراجی چھتری کے نیچے نہیں آتے جبکہ سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کی بادشاہت کے خلاف بات نہیں کی جاتی کیونکہ وہ سامراج کے نیو ورلڈ آرڈر کے کل پرزوں کااکردار ادا کرتے ہیں۔ فوجی آمریتوں کو اکثر ‘سامراجی جمہوری’ ممالک کی سپورٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کیلیے کام کرتے ہیں۔۔اسل یے سیاسی نظام کی تشکیل یا جمہوریت کے نام نہاد تصور سے زیادہ اہمیت ان بنیادی اصولوں کی ہوتی ہے جن کی بنیاد پر سماج میں رہنے والے شہریوں کی آزادی، بلاتفریق خوشحالی، معاشی برابری اور وسائل قدرت پر رسائی کے برابر مواقع کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ حقیقی جمہوریت وہ ہے جس میں محنت کشوں کو تمام تر اختیارات دیے جائیں اور ‘ریاست‘ نامی جانور محنت کشوں کے مکمل طور پر تابع ہو۔
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں