راجہ افضال سلیم عباسی
دنیا میں ہر چیز کے دورخ یا دو پہلو ہوتے ہیں ان کو ہم اس چیز کے ظاہر اور باطن بھی کہہ سکتے ہیں ان کو جسم اور روح بھی کہا جاتا ہے۔
ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہم جسم سے تو واقف ہوتے ہیں مگر روح سے ناواقف،ہم جسم کو ہی اصل سمجھ کر تمام زندگی اس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں مگر روح اسے ہماری تعلق انتہائی ناقص یا نہ ہونے کے- برابر ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں روح ہی اسکا اصل ہوتا ہے اور جسم تو صرف معاون ہوتا ہے،روح اگر ختم ہوجائے تو جسم کی وقعت ختم ہوجاتی ہے اگر جسم کمزور بھی ہوجائے مگر روح مضبوط ہوتو کام چل جاتا ہے مثال کے طور پر ہمارے گھر میں کوئی بیمار ہوجاتا ہے اس کو فالج کا مرض لاحق ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا تو ہم اس کوکہیں پھینک نہیں آئیں گے کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ جسم مفلوج ہونے کے باوجود اس میں روح باقی ہے اور جب تک روح موجود ہوگی ہم اس کا علاج کروانے کی بھرپور کوشش کریں گے ہماری کوشش ہوگی کہ اسکا جسم دوبارہ سے ٹھیک ہوجائے اور یہ چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے مگر جب اس کے جسم میں سے روح ہی نکل جائے گی تو ہم چند گھنٹوں کے بعد اس کو مٹی کے سپرد کرآئیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر چند گھنٹے مزید اس کو گھر میں رکھا تو اس میں سے بدبو آنا شروع ہوجائے گی اور یہ گلناسڑنا شروع ہوجائے گا یہ جسم اور روح کا رشتہ ہے جب تک ہم روح کو نہیں پہچانیں گے جسم سے ہمارا رشتہ بے کار رہے گا،اسی طرح بحثیت مسلمان ہم اپنی عبادات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم آج تک عبادت کی روح سے واقف ہوئے بغیر ہی عبادت کے جسم سے ہی دل کو تسکین دیتے رہے ہیں کہ ہماری عبادات ادا اور قبول ہورہی ہیں،کلمہ جو اسلام کا پہلی بنیاد ہے،اسکا جسم توحید کا اقرار ہے مگر اس کے روح کو جاننے کی ہم کوشش ہی نہیں کرتے اس کا آغاز لا یعنی نہیں،انکار سے ہوتا ہے اس کا مفہوم ہے کہ انکار ظلم کے نظام کا جس کے تحت شرک پھیلایا جاتا ہے یعنی لوگوں کو اللہ کے علاوہ اور خداؤں کے سامنے جھکایا جاتا ہے،اور میں انکار اس ظلم کے نظام کا کرتا ہوں جیسا نظام مکہ میں اس وقت قائم تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے اور دوسرے حصے کا مفہوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس طرح مکہ سے نظام ظلم کا خاتمہ کیا اس طرح سے میں بھی نظام ظلم کے خلاف جدوجہد کرکے نظام عدل قائم کروں گا،اس کے بعد اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے،وضو کرنا،نیت باندھنا، رکوع،سجدہ،سلام یہ سب نماز کا جسم ہیں جبکہ اس کی روح ہے کہ تمام انسان برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں نہ ہوکوئی ان میں چھوٹا بڑا ہے نہ مال و دولت کے حوالے سے نہ مرتبے کے اعتبار سے اور برتری اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ صرف تقوی کی بنیاد پر ہے اس وجہ سے اللہ کے دربار میں سب برابر کی سطح پر جھکتے ہیں او راس مسجود برحق کو سجدہ کرتے ہیں،اسی طرح روزہ میں سحری کے وقت اٹھنا،کھانا کھانا،روزہ بند کرنادن بھر عبادت کرتا کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرنا اور مغرب کے وقت روزہ افطار کرنا اس کا جسم ہے کہ جبکہ اس کی روح ہے کہ انسانیت کو بھو ک سے بچایا جائے اور غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے،جب انسان خود بھوکا ہوگا تو اسے احساس ہوگا کہ بھوک کتنی بری چیز ہے،
حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ بھوک انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔
مستحقین کو اپنے مال میں سے دینا اور روپے پیسے سے انکی مدد کرنا تاکہ تمام مال پاک ہوجائے زکواۃ کا جسم ہے جبکہ دولت کو تقسیم کرنا اور جمع نہ کرنا اس کی روح ہے تاکہ ہم بس دنیا کے نہ ہوکے رہ جائیں اور ہم وقت مال جمع کرنے اور گننے میں نہ لگے رہیں اس کی وجہ سے دولت کو دوسرے ضرورت مندوں میں تقسیم کرناہے جبکہ سرمایہ دارنہ نظام میں پیسے کو جمع کرنا اور خرچ نہ کرنا اس کی روح ہے اور سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ بس وہ ہر وقت پیسہ جمع کرتااور گنتا رہے،وہ مختلف جائز اور ناجائز طریقوں سے دولت جمع کرتا ہے اور پھر اس دولت کے
ذریعے لوگوں کو اپنے سامنے جھکانے کی کوشش کرتا ہے کبھی کسی کو نوکری دے کر اور کبھی نوکری چھین کر،
اسلا م کے ایک اور بنیادی رکن جہادجو لفظ جہد سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔جہاد کی بہت سی اقسام ہیں جن میں جہاد بالنفس یعنی نفس کے خلاف جہاد کرنا،اس کو خداکریم کے احکامات کی خلاف ورزی سے روکنا، جہاد بالقلم یعنی ظلم کے خلاف قلم کے زریعے جدوجہد کرنا ، جہاد بالمال یعنی ظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی مالی مدد کرنا،میدان جنگ میں شریک ہونے والوں کی مال سے مدد کرنا جہادبالسیف یعنی قتال،اللہ پاک کی راہ میں ظلم و جابر کے خلاف تلوار کے ذریعے لڑائی کرنا اس کے خلاف جدوجہد کرنا ہے،جہادکا جسم وہ تو جدوجہد یا کوشش ہے جو قلم، مال، تلوار یا کسی اور زریعے سے کرناہے ا س کی روح دنیا میں فتنے و فسا د کا خاتمہ اور عدل کا نظام قائم کرنا ہے۔تاکہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو اور مخلوق خدا چین و امن کی زند گی گزار سکے۔حج کے دوران جو افعال ظاہر نظر آتے ہیں وہ اس عبادت کا جسم ہیں جن میں بیت اللہ کا طواف، شیطان کو کنکریاں مارنا۔اس کی روح اپنے ملک و معاشرے میں عدل کا نظام قائم کرنے کے بعد عالمی سطح پر عدل کا نظام قائم کرنا ہے۔اللہ تعالی کو اپنی تمام مخلوق سے پیار ہے اور انسان تو اشرف المخلوق ہے۔اللہ تعالی یہ کسیے برداشت کریں کہ دنیا کے ایک حصے میں عدل کا نظام قائم ہو جبکہ بقیہ انسانیت پستی رہے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مکہ مدینہ و جزیرہ عرب میں عدل کا نظام قائم کرنے کے بعد پوری دنیا میں عالمی سطح پر اس نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردی تھی او ر ان کی وفات کے ان کی جماعت صحابہ کرام نے اس کی تکمیل کی اور دنیا کے ایک بڑے حصے پر عدل کا نظام قائم ہوا۔حج کی روح عالمی سطح پر عدل کے اس نظام کے قیام کی کوشش کا عہد کرنا ہے جس میں تمام انسانیت کو یکساں حقوق حاصل ہوں جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری حج کے خطبے میں دیا تھا کہ کسی کالے کو کسی گورے پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل نہیں، برتری صرف تقوی کی بنیاد پر ہے۔(تقوی صرف گھر میں چھپ کر عبادت کا نام نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے نظام کے لیے کوشش ہو، جدوجہد کرنے کا نام ہے،جو نظام ظلم کو مٹانے اور نظام عدل کو قائم کرنے کے لیے جتنی کوشش کرے گا وہ اتنا متقی ہے۔)
صحافت کا بھی ایک جسم ہے اور ایک روح ہے،بلڈنگ لینا،اخبار نکالنا،اس میں رپورٹنگ،اداریہ،کالم،کمپیوٹر کمپوزنگ،اخبار کی چھپوائی،ہاکر کا لوگوں تک اخبارپہچانا اور قارئین کا اخبار پڑھنا اس کا جسم ہے جبکہ مسائل کی نشائدہی کرنا،انکا حل پیش کرنا اور معاشرے کے نوجوان طبقے کی اخلاقی تربیت کرنا کہ ان میں ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کا جذبہ بیدار ہویہ اس کی روح ہے،صحافی معاشرے کی آنکھ،ناک،کان ہے یعنی وزارت اطلاعات و نشریات نظام حکومت میں آنکھ،کان اور ناک ہیں۔صحافی وہ دیکھتا ہے جو عام آدمی دیکھ نہیں سکتا،وہ سنتا ہے جو عام آدمی سن نہیں سکتا،پاکستان جیسے زوال پذیر معاشرے کو بام عرو ج پر لانا ایک صحافی کا فرض ہے اور موجودہ سرمایہ دارنہ نظام جسکی وجہ سے ایک طبقہ جو پانچ فیصد سے بھی کم ہے ملک کے تمام تر وسائل اور دولت پر قابض ہے اور 95فیصد غربت و افلاس کا شکار ہیں ایسے ظالمانہ نظام کے خلاف نوجوانوں میں جدوجہد کا جذبہ پیدا کرے کہ وہ اجتماعی شکل میں عدم تشدد کی حکمت عملی اختیار کرکے منظم ہوکر ایسے جدوجہد کریں
کہ یہ ظلم کا نظام زمین بوس ہوجائے او ر اس کی جگہ عدل کا نظام قائم کریں کہ جس میں کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے،کوئی بچی تعلیم سے محروم نہ رہ جائے اور سب کو یکسا ں جینے کے مواقع حاصل ہوں۔