بندے بڑھا دیجے

تحریر :چوہدری مدثر اقبال
محاورہ ہر خاص عام جو یاد ہی ہے ،موجودہ حالات بھی کچھ اسطرح کے ہیں ،مہنگائی کی جو گرم لہر اس وقت چل رہی نہ دیکھی نا سنی دس فیصد مہنگائی دو روپے پٹرول مہنگا ہونے پر چیخیں مارنے والی یہ باشعور عوام تقریبا ڈیڑھ سو روپے پٹرول اور دو سو فیصد مہنگی اشیاء خرید بھی رہی استعمال بھی کر رہی اور آگے بھی تیار ہے کہ رمضان آرہا ہے.

مسلمان پاکستان تاجر، زخیرہ اندوز برادران نیکیوں کا پہاڑ جمع کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں،معاشی بحران غریب و متوسط طبقہ کی جان پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران زبوں حالی کا شکار ہوئی،اور پی ڈی ایم کی پاکستان بچانے والی پارٹیاں اور اسکے بعد ڈالر کو 200 سے نیچے لانے والے اور پٹرول کو 100 روپے تک لانے والے ڈار صاحب جو معاشیات کے سائنسدان طور پر مشہور کیے گئے،عوام انکو انکے نے نئے تجربات کو عذاب مسلسل کے طور پر بھگت رہے ہیں ،عالم تو یہ ہے گاڑی والا بائیک اور بائیک والا سائیکل یا پیدل چلنے والوں میں شامل ہوچکا ہے بچوں کو سیر تفریح کروانا باہر سے کچھ کھلانا اب عیاشی کے زمرہ میں آتا،کسی عزیز کی غمی خوشی میں شامل ہونا اب ایک مشکل امتحان کی طرح نظر آتا ،ضروریات زندگی کی اہم چیزوں کو ریک سے اٹھا کر واپس رکھ دیا جاتا ہے کہ اس کے بغیر گزراہ ہوجایے گا ،والدین یا گھر کے سربراہان چڑچڑی سے طبیعت کے مالک بنتے جارہے اپنے ہی گھر والوں بچوں اور والدین کی جائز خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوگیا اور انکی آن ڈیمانڈ پر غصہ بھی آتا کہ بھلا اسکی کیا ضرورت،سکول وکالج کی فیسیس اب قسطوں اور منتیں کرکے ادا کی جارہی، ادوایات کی جگہ اب پرہیز سے علاج کیا جارہا ،کسی کی مدد کی بجائے اسکو حوصلہ وہ بھی واٹس ایپ میسج یا فیس بک پر اسکا غم شئیر کر کے دیا جارہا،سفید پوش اپنا بھرم گنوا کر آپ سر عام اپنی بے بسی کا رونا روتے نظر آرہا،نوجواں ماں باپ کی امید اپنے خواب ڈگری لیے اب ڈکیتیوں واہیات ٹک ٹاک کے زریعے پورا کرتے نظر آرہے،خدا کی پناہ کراچی تو سنا تھا لیکن محفوظ ترین شہر اسلام آباد سیف سٹی میں زبردستی کا زنا اور ایک ایک دن میں 52 ڈکیتی کی وارداتیں ان نوجوانان کی کامیابیوں کا ثبوت ہیں کہ وہ کس طرح خود کو منوانے کے لیے میدان عمل میں موجود ہیں، پچھلے چار پانچ سال میں مکالمہ احترام دلیل روایات سب دفن ہوئے اور زور، بدتمیزی ،اور لاعلمی بنا تحقیق معلومات شیئر کرنا اور اس پر ایمان کی حد تک یقین کرلینا ،جیسی حرکات نے معاشرے میں جڑیں مضبوط کرلیں،یہ سلسلہ کب رکے گا نہ جانے کب کسی کو کچھ پتہ نہیں اسٹیبلشمنٹ،سے لیکر عدلیہ بیورو کریٹ سے لیکر سیاستدان مذہبی راہنما سے لیکر لبرل سوچ والے اشرافیہ سے لیکر غریب تک ہر کوئی اپنی اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق کرپٹ ہے ،بچا وہ ہی ہے جس کو موقع نہیں ملا یا مل نہیں رہا ،اپ بھی سوچتے ہوں گے کہ کیا پاکستان میں سب کچھ برا ہے ،نہیں نہیں ایسا کچھ بھی نہیں اچھا بھی ہے یہاں کہ ہم امید کا دامن نہیں چھوڑتے اچھے کی امید رکھے ہوئے آگے بڑھتے جارہے ہیں ،پشاور کراچی پولیس ہیڈ افسز میں دہشتگردی ہویا پھر موٹر وے ریپ کیس سری لنکن مینجر ہو یا ایف نائن پارک کو دل دکھا دینے والا واقعہ، اپنی گندم میں خود کفیل ملک میں آٹا کی لائن میں کوئی مرجائے یا پھر بلوچستان میں مظلوم و مجبور قیدیوں کی لاشیں کنوئیں سے برآمد ہوجائیں،عمران خان نوازشریف کے کیسز گھنٹوں میں ختم ہو جائیں، پچاس کے سٹامپ پیپر پر ایک قیدی باہر جاکر علاج کی غرض وغایت کی صورت میں عیاشی کی زندگی گزارے ،عدالت بار بار بلائے اور ملزم آہنی مرضی سے اپنے حواریوں کے ساتھ حملہ کی صورت میں پیش ہو کر عدالت کو دباؤ میں لائے اور عدالت کہے کہ آپکا شکریہ کہ آپ آئے تو ،یا پھر وہ مظلوم جن کا کیس اتنا لمبا چلتا کی تین تین نسلیں دنیا سے چکی جاتیں فیصلہ نہیں ہو پاتا ،اگر فیصلہ ہو بھی جاتا تو پچیس سال بعد پتہ چلتا کہ فیصلہ غلط ہوا تھا انصاف جس کو فراہم کیا جاتا اسکو فوت ہوئے پانچ سال ہوچکے ہوتے ،جہاں پروٹوکول کی صورت میں معصوم بچے روڈ پر گرمی میں کھڑے بلبلاتے رہیں گھر و سکول سے لیٹ ہوتے رہیں ایمبولینس میں مریض تڑپ تڑپ کر مرجائے ،جہاں عہدہ والوں کے بچے سرکار کی گاڑی ٹریکٹر ٹرالی کی طرح چلائیں جب جس کا دل چاہے مار پیٹ کریں جہاں تگڑے کے خلاف ایف آئی آر میں اپنا نام تک نہ آنے دیں نامعلوم شخص کی دیا جائے جہاں غریب پر جب مرضی ایف آئی آر درج کروائیں اور پورا پورا گھر اٹھا لائیں نہ چادر نہ چار دیواری جہاں تھانیدار کہے کہ تھانہ کا خرچ یہ شریف نما بدمعاش اگر نہ ہوں تو نہیں چلتا جہاں وکیل اپنی مرضی کے جج پر سامنے کیس لگوائے اور ملزم خود ججز سے مل آئے وکیل کی جگہ جج ہی کر آئے جہاں صحافی کسی طاقتور کہ آلہ کار ہو اپنے قلم کو خود کو طوائف کے پیشہ سے بھی بدتر کر دے سچ جو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر معاشرے میں گندگی کا باعث بنے،عوام کے ایشوز کو چھوڑ کر خواص کی گالیاں سرخیاں اور ہیڈ لائین بنائیں ، دوکاندار جانتے بوجھتے دس دس نمبر چیزیں قسمیں اٹھا اٹھا کر بیچ دے، جہاں دودھ چند منٹوں میں منوں کے حساب سے تیار ہوکر لوگوں کے پیٹ تک پہنچ جائے ،اور اسکو اللہ کا نور کہا جائے، اور سب خاموش رہیں انسان جانور کی طرح ایک زندگی گزار رہے ہوں ،اور یہ سوچیں کہ میں ٹھیک ہوں تو سب کچھ ٹھیک ہے، میں تو نہیں مر رہا کوئی مرتا ہے تو مر جائے میرا گزارہ ہورہا، دوسروں کی کیا فکر کس شخصیت کے لیے گھر سے باہر نکلنے والے جو خود کے لیے اپنے حق کے لیے باہر نہ نکلے تو ا سکے لیے یہ ہی محاورہ یا کہانی کہ ایک بادشاہ نے ٹیکس پر ٹیکس لگانے شروع کر دیے اور اس انتظار میں رہا کہ عوام کی طرف کوئی احتجاج ہوگا لیکن ندارد اس نے بادشاہ نے ایک اور آرڈر جاری کیا کہ ٹیکس بھی دوگنا بھی لیں اور دو دو لتر (جوتے) مارنا شروع کر دیں ،یہ کرنے سے یہ ہوا کہ ایک آدمی محل میں آگیا بادشاہ خوش ہوا کہ چلو کوئی تو اس ظلم کے خلاف بولنے کے لیے آگیا ،سائل آیا عرض کی بادشاہ سلامت محترم آپ نے ٹیکس لگایا ہم نہیں بولے آپ نے دگنا کر دیا ہم نہیں بولے اب دو لتر بھی مار رہے ہیں اسکی بھی پرواہ نہیں ،بادشاہ اور درباری حیران کہ یہ پھر آیا کیوں ہے،ہم تو اس لیے اسکو سن رہے تھے کہ اس کے مطالبہ پر کچھ سختی کم کریں گے اور عوام سے داد وصول کریں گے ، اسکی درخواست تو ظلم جبر کے خلاف تھی،بادشاہ نے پوچھا پھر مسلئہ کیا ہے اس نے کہا کہ جناب آپ کا طریقہ سب ٹھیک ہے لیکن خدارا لتر( جوتے) مارنے والے بندے بڑھا دیں ہمیں ٹیکس جمع کرواتے بہت ٹائم لگ جاتا ہے,
تو جناب عالی اس وقت مملکت پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے سب آگے بڑھتے جارہے مزید آگے جانا چاہتے ہیں ،بس حکومت وقت سے درخواست ہے کہ بندے بڑھا دیں

اپنا تبصرہ بھیجیں