محمود غزنوی کے ہمراہ بنو عباس کی ہندوستان و کشمیر آمد بمطابق 1016 عیسوی
سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ العباسی الہاشمی المعروف سردار ضراب خان عباسی، عباسی خلیفہ القادر باللہ کے دور خلافت میں محمود غزنوی کے ہمراہ سن 1016 عیسوی کو علاقہ ہرات، خراسان سے دہلی، ہندوستان بسلسلہ فوجی مہم وارد ہوئے۔ تاریخ کی کتب میں یہ بات درج ملتی ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ریاست کشمیر پر 1016ء اور 1020ء عیسوی کو دو بار حملہ کیا۔ غیاث الدین ضراب شاہ، سلطان محمود غزنوی کے کشمیر پر دوسرے حملے بمطابق 1020ء عیسوی کو عرب قبائل کے سپہ سالار کی حیثیت سے شامل تھے۔ یہ بات تاریخ کی کتب میں درج ملتی ہے کہ 1020ء عیسوی میں سلطان محمود غزنوی کے لشکر میں عرب قبائل کا ایک لشکر اس فوجی مہم میں شامل تھا جس نے قدیم ریاست کشمیر پر حملہ کیا تھا جسکی قیادت عربی النسل بنو عباس کے غیاث الدین ضراب شاہ کررہے تھے۔ سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ کی پیدائش بمطابق 998ء عیسوی کو سلطنت غزنویہ کے صوبہ ہرات، خراسان (موجودہ افغانستان و ایران کا سرحدی علاقہ) میں ہوئی۔ آپکا اصل نام غیاث الدین جسکے معانی ہیں “دین اسلام کا مددگار” اور آپکی جرأت و بہادری کیوجہ سے آپکو *ضراب* کے خطاب سے نوازا گیا جسکے معانی “شدید حملہ کرنے والے” کے ہیں۔ سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ کے والد کا نام طائف شاہ تھا جو کہ محمود غزنوی کے والد سبکتگین کے ہمراہ بغداد، عراق سے ہرات، خراسان چلے آئے اور اسکے فوجی لشکر میں بطور کمانڈر تعینات ہوئے اور خراسان میں ہی آباد ہوئے۔ طائف شاہ کے کل 4 بیٹے تھے جن میں عبدالعزیز، احمد ، عباس اور غیاث الدین شامل ہیں جنکی اولاد وسطی ایشیائی ممالک ثمرقند و بخارا، خراسان، افغانستان اور شمالی پاکستان میں آباد ہے۔
سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور آپ بچپن سے ہی ایک زہین و اعلی اخلاق کے حامل شخص تھے، آپکی پیدائش ایک متوسط اور دینی گھرانے میں ہوئی۔ 16 سال کی عمر میں ہی آپکی قابلیت و صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپکو صوبیدار صوبہ ہرات، خراسان (گورنر جنرل آف فورسز) کے بلند مقام پر فائز کیا گیا۔ آپ سن 1016ء عیسوی کو محمود غزنوی کے ہمراہ پہلی بار برصغیر پاک و ہند تشریف لائے اور دہلی اور اجمیر کے مضافاتی علاقوں میں فوجی مہمات میں بطور سپہ سالار شامل رہے اور داد شجاعت وصول کی۔ سن 1020ء عیسوی میں آپکو قدیم ریاست کشمیر کیطرف بادشاہ کی سرکوبی کے لیے بمع لشکر روانہ کیا گیا اور بادشاہ جنگ بندی کے معاہدہ پر راضی ہوا اور آپکے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر اپنی ایک دختر کو بھی آپ سے رشتہ ازدواج میں منسلک کیا اور قدیم ریاست کشمیر میں ایک وسیع و عریض رقبے پر آپکو جاگیر اور مراعات بھی عنایت کی۔ سن 1021ء عیسوی میں آپکو محمود غزنوی کی جانب سے قدیم ریاست کشمیر اور اس سے ملحقہ غزنوی فتح یاب علاقوں کی سرحد کا نگران و صوبیدار اعلی مقرر کیا گیا جن میں موجودہ کہوٹہ، ضلع راولپنڈی سے لیکر بشمول پونچھ کشمیر، مانسہرہ ضلع ہزارہ تک کا ایک وسیع و عریض خطہ و رقبہ جات شامل ہے۔ آپ چند عرصہ سرینگر، کشمیر میں قیام کرنے کے بعد کہوٹہ، ضلع راولپنڈی کے گاؤں ضراب کوٹ موجودہ دراب کوٹ میں آکر آباد ہوئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی اور آپکا مزار مبارک بھی کہوٹہ کے اسی گاؤں میں مرجع خلائق ہے۔ یوں تو تاریخ کی 16 مستند ترین اور قدیمی کتب میں سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ کی آمد محمود غزنوی رح کے ساتھ ثابت ہے مگر سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ غیرت و حمیت، اخلاق و جرأت، بہادری و جوان مردی کا وہ سرچشمہ حیات تھے جنکے کردار ،اخلاق اور بہادری کو دیکھتے ہوئے میدان حرب میں مدمقابل غیر مسلم دشمن نے بھی انکے آگے اپنا سر تسلیم خم کیا بلکہ اپنی حقیقی دختر نیک کی شادی بھی اس عربی النسل نوجوان سے کی اور اپنی ریاست کے ایک وسیع و عریض رقبے پر آپکو جاگیر بطور تحفہ عنایت بھی کی۔
تاریخی کتب کے حوالے سے مراۃ السلاطین فی سیر المتاخرین سن اشاعت 1836ء جلد اول اور آئینہ قریش 1916ء از سردار محمد اکرم خان عباسی کے تاریخی روایات میں درج ملتا یے کہ محمود غزنوی کے زمانے صوبہ ہرات خراسان میں ضراب خان، صوبیدار صوبہ (گورنر جنرل آف فورسز) کے بلند مقام پر فائر ہوئے۔ ایک فوجی مہم میں انکی آمد کشمیر میں ہوئی اور شاہ کشمیر کی دختر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کیبعد آپ یہیں آباد ہوئے۔
تاریخ طاہری جو کہ سن 1600ء عیسوی کو تحریر کی گئی اس میں درج ہے کہ عرب قبائل کی قیادت بنو عباس سے ایک نوجوان لڑکا ضراب خان کررہا تھا جسکی والدہ ترک تھی، یہ عرب لشکر محمود غزنوی کی فوج میں شامل تھا اور یہ کشمیر پہ دوسرے حملہ بمطابق 1020ء عیسوی کی بات ہے۔ اسکے علاوہ تاریخ عباسیه میں مصنف نے تاریخ کی کتاب ھبیرۃ العرب کے حوالے سے اس واقعے کی تفصیل یوں درج کی ھے کہ سلطان محمود غزنوی کے کشمیر پر دوسرے حملے کے وقت عرب قریش قبیلے سے ایک نوجوان لڑکا تھا جو عرب قبائل کی سپہ سالاری کررہا تھا اور یہ کشمیر کی باجگزار ریاست پر حملہ آور ہوا تھا۔ تاریخ موسم بہار جلد سوم میں یہ لکھا ہے وہ عربی النسل نوجوان پنجاڑ (موجودہ کہوٹہ، ضلع راولپنڈی کا مضافاتی علاقہ) پر قابض ہوگیا تھا اور راجہ قلعہ چھوڑ کر کشتواڑ (موجودہ مقبوضہ کشمیر کا ایک مشرقی ضلع) بھاگ گیا تھا۔
کشمیر کی تاریخ پر سب سے قدیم کتاب راج ترنگنی ہے جسکو پنڈت کلہن نے 1160 عیسوی کو سنسکرت زبان میں لکھا، راج ترنگنی کی ساتویّں ترنگ کے صفحہ نمبر 580 میں محمود غزنوی کے لشکر کا ریاست کشمیر پر حملہ کا تزکرہ درج ملتا ہے وہیں اسکے نوجوان سپہ سالار کی بہادری و شجاعت کا زکر بھی موجود یے۔ راج ترنگنی کی ساتویں ترنگ میں صفحہ نمبر 580 میں مصنف نے لکھا ہے کہ سن 1010ء و 1020ء کے درمیان کشمیر کے راجہ سنگرام کے دور حکومت میں جب محمود غزنوی کی فوج نے کشمیر پر حملہ کیا اور صبح کے وقت گھمسان کا رن جما تو محمود غزنوی کی فوج کا سپہ سالار جو نوجوان لڑکا تھا اور فن حرب سے بخوبی واقف تھا جوش میں بھرا ہوا میدان جنگ میں نکلا جس پر شاہی فوج فورا تتر بتر ہوگئی ہر چند کہ باقی ماندہ فوج نے اسکا مقابلہ کیا مگر انکو شدید حزیمت کا سامنا کرنا پڑنا اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ *تاریخ کشمیر* از محمد امین پنڈت نے اپنی کتاب کے نویں باب میں لکھا ہے کہ کشمیر کے راجہ سنگرام راج کے دور حکومت بمطابق 1001ء تا 1021ء کے درمیان محمود غزنوی کشمیر پر حملہ آور ہوا تھا اور کشمیر میں کوہ سلیمان کے مقام پر جہاں ایک مندر تھا وہاں نماز ظہر ادا کی اور بڑی تعداد میں لوگوں کو مسلمان بنایا۔ اس نے ایک ماہ اور نو دن کشمیر میں قیام کیا اور واپس غزنی روانہ ہوا۔ ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین کی کتاب *کشمیر* میں یہ رائے ظاہر کی گئی ہے کہ راجہ سنگرام کے دور میں محمود غزنوی نے کشمیر پر حملہ کیا جس پر راجہ کہ فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر شدید موسم اور دشوار گزار رستوں کیوجہ سے محمود غزنوی مکمل ریاست کو زیر نا کرسکا اور واپس روانہ ہوا۔
برصغیر پاک و ہند میں آباد قبائل بنو عباس کی تاریخ پر سب سے مستند ترین کتب میں مفتی نجم الدین ثمرقندی اور مفتی رکن الدین ثمرقندی کی تصنیف کردہ کتب کو ممتاز حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں تحریر کی گئی، برصغیر پاک و ہند میں آباد خاندان عباسیہ کی تاریخ پر مفتی نجم الدین ثمرقندی رحمت اللہ تعالی علیہ اپنی تصنیف عباسیان ہند سن اشاعت 1819ء میں لکھتے ہیں کہ غیاث الدین ضراب شاہ المعروف ضراب خان، محمود غزنوی رح کی فوجی مہم کے دوران ہندوستان دہلی تشریف لائے۔ محمود غزنوی کے عرب لشکر کی سپہ سالاری غیاث الدین ضراب شاہ کے سپرد تھی۔
تاریخ عباسیان ہند میں مصنف نجم الدین ثمرقندی نے لکھا ہے کہ ہندوستانی تاریخ دان اجت ناگ نے اپنی کتاب تاریخ دہلی کے صفحہ نمبر 126 میں لکھا ہے کہ جب محمود غزنوی افغانستان سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو عرب لشکر کا نائب غیاث الدین عبیدی نامی نوجوان تھا، یہ نوجوان انتہائی بہادر اور جنگجو تھا۔ یہ دشمن کے لشکر پر ایسے حملہ کرتا تھا جس طرح بکریوں کے ریوڑ پر شیر حملہ آور ہوتا ہے اس وجہ سے اسے *ضراب* کہتے تھے کہ عرب کا سب سے زیادہ مارنے والا شیر اور اس نوجوان کا شجرہ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب رض کے فرزند عبید الله ابن عباس ابن عبدالمطلب رض سے جاملتا ہے اور یہ بنوعباس سے تھا۔
دوسری روایت میں درج ہے کہ *ضراب* کا لفظ عربی لفِظ *ضرب* سے نکلا ہے جسکے معانی ہیں “بہت مارنے والا”. دشمنوں کے لشکر پر زبردست حملے اور انتہائی جنگجو ہونے کے سبب سپہ سالار غیاث الدین شاہ کو *ضراب* کا خطاب دیا گیا اور آپ اسی نام سے عوام الناس میں زیادہ مشہور و معروف ہوئے۔ علاوہ ازیں عرب میں ضراب اس شیر کو کہا جاتا ہے جو بہت مارنے والا ہو باویں وجہ غیاث الدین شاہ، ضراب خان کے نام سے زیادہ مشہور و معروف ہوئے۔ آپکے نام کیساتھ ‘عبیدی’ کا لاحقہ سے یہ ثابت ہے کہ آپ عبیدالله ابن عباس کی اولاد سے تھے اور آپ کا شجرہ نسب سعید بن محمد بن عبیدالله بن عباس بن عبدالمطلب رض سے جاملتا ہے، جسکا اندراج عرب شجرہ جات کی مشہور اور بنیادی کتاب *جذواۃ الاقتباس فی نسب بنو عباس* *مشجرات الزکیه فی انساب بنی ھاشم* اور *بنو ھاشم از شیخ حسن الحسینی* میں درج ملتا ہے۔ آپکا سلسلہ نسب تیرھویں پشت پر جاکر حضور اکرم صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا سیدنا عباس ابن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہ سے جاملتا ہے۔ اس حوالے سے غیاث الدین ضراب شاہ المعروف ضراب خان کا شجرہ نسب یہ ہے :
سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ، لقب ضراب خان ابن طائف شاہ ابن الشریف نوح ابن الشریف عباس ابن الشریف رفیع ابن الشریف فضل ابن الشریف اسحاق ابن الشریف عادل ابن الشریف یافث ابن الشریف سعید ابن الشریف محمد ابن السیدنا عبیدالله ابن السیدنا عباس ابن السیدنا عبدالمطلب ابن السیدنا ھاشم
[ بحواله – عباسیان ہند از مفتی نجم الدین ثمرقندی سن اشاعت 1819ء، انساب ظفرآباد اعظم گڑھ جونپور ہندوستان سن اشاعت 1775ء، جزوۃ الاقتباس فی نسب بنو عباس، بنو ہاشم از الدکتور الشیخ حسن الحسینی، مشجرات الزکیه فی انساب بنی ھاشم ]
_______________________
[ تصدیق و جاری بالنقابت الاشراف العباسيه پاکستان ]
________________________
مفتی نجم الدین ثمرقندی نے عباسیان ہند 1819ء میں صفحہ نمبر 38 میں یہ لکھا ہے کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ غیاث الدین ضراب شاہ، حضرت عباس رض کے فرزند عبیدالله ابن عباس کی اولاد سے تھے تبھی انکے نام کیساتھ عبیدی درج ہے جبکہ بعض کہتے ہیں کہ غیاث الدین ضراب شاہ، پہلے عباسی خلیفہ عبدالله السفاح کی نسل سے سیدنا عباس کے فرزند عبدالله ابن عباس کی زریت میں سے تھے۔ مفتی نجم الدین ثمرقندی لکھتے ہیں کہ بعض مؤرخین نے سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ کے جدامجد الشریف السعید عباسی کو محمد بن عبیدالله کی بجائے محمد بن عبدالله السفاح کا بیٹا لکھا اور کہا کہ غیاث الدین ضراب شاہ، محمد بن عبداللہ السفاح کی نسل سے حضرت عباس کے فرزند حضرت عبدالله ابن عباس رض کی اولاد سے تھے جبکہ عرب مؤرخین نے یہ لکھا ہے کہ عبداللہ السفاح کا حقیقی بیٹا محمد بن عبدالله السفاح لاولد گزرا ہے، جسکی وجہ سے ابو عباس عبدالله السفاح کی نسل نہیں چلی اور اسکا سعید نام کا کوئی بیٹا یا پوتا نہیں تھا۔ اس حوالے سے عرب تاریخ کی مشہور اور بنیادی کتب البلازری 850ء عیسوی، تاریخ طبری، الانساب الاشراف، جمہرات الانساب العرب 1022ء، الاساس فی انساب بنی عباس، جزواۃ الاقتباس، بنو ہاشم از الدکتور حسن الحسینی، تاریخ یعقوبی، تاریخ ابن حزم، تاریخ الخلفاء از امام جلال الدین سیوطی رح اور قریبا 260 عرب کتب میں یہ بات درج ملتی ہے کہ پہلے عباسی خلیفہ ابو عباس عبدالله السفاح کا حقیقی بیٹا محمد بن عبدالله سفاح لاولد گزرا ہے جسکی وجہ سے عبداللہ السفاح کی نسل نہیں چلی۔ اس حوالے سے غیاث الدین ضراب شاہ سے منسوب عبدالله السفاح کی روایت من گھڑت اور غیر مستند ہے۔
اسکے علاوہ عباسیان ہند میں مفتی نجم الدین ثمرقندی مزید بیان کرتے ہیں کہ تاریخ اجمیر میں مولوی لطف الله اله آبادی نے لکھا ہے غیاث الدین شاہ، بنو عباس ابن عبدالمطلب سے تھے۔ دہلی سے اجمیر حاظری دربار کے لیے آئے تھے۔ وہاں حضرت رکن مسند شاہ عرب سے تشریف لائے ہوئے تھے تو غیاث الدین انہی کے ہاں مہمان ٹھہرے۔ غیاث الدین کا لباس عربی تھا، کمر میں تلوار تھی جیسے مجاہد ہو، بڑا بارعب و خوبرو نوجوان تھا۔ چند دن ٹھہرنے کے بعد حضرت رکن شاہ کے حکم پر سرینگر، کشمیر گیا اور وہیں قیام کیا، سلوگن میں اسکی اولاد آباد ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سرینگر تھوڑے عرصہ قیام کے بعد وہ پونچھ کشمیر چلا گیا جہاں سرینگر کے راجہ نے اسے جاگیر عطا کی تھی۔
تاریخ کشمیر کے مصنف الپیال رتن لکھتے ہیں کہ غیاث الدین شاہ کو شالاوجن، مقبوضہ کشمیر میں جاگیر دی گئی تھی اور یہ بنو عباس سے تھا اور غزنوی لشکر کیساتھ دہلی سے سرینگر آیا تب اسکو پونچھ میں یہ جاگیر سرینگر کے راجہ نے دی تھی۔ الپیال رتن کی یہ کتب 1725ء عیسوی میں سرینگر کشمیر سے شائع ہوئی تھی۔
مولوی الف دین راجوری کشمیری اپنی کتاب ہجرت کے سفر میں یہ لکھتے ہیں کہ ہم یہ بات تواتر سے سنتے آرہے ہیں کہ غزنوی لشکر میں عرب لشکر کی سپاہ گری عربی بنو عباس کی نسل سے غیاث الدین شاہ کے پاس تھی اور اس لشکر کی سپاہ گری کرتے ہوئے وہ سرینگر کشمیر آئے تھے جہاں ایک معرکے میں کامیابی کے بعد انہیں سرینگر کے راجہ کی طرف سے کافی جاگیر عطا کی گئی تھی۔
مفتی نجم الدین ثمرقندی بیان کرتے ہیں کہ ثقافت کشمیر از محب اللہ نے صفحہ نمبر 68 میں لکھا ہے کہ غیاث الدین شاہ کی شادی کشمیر کے راجہ مل خان کے آباؤاجداد کے خاندان میں ہوئی اور اسکے اکلوتے فرزند اکبر غئی خان کا نھنیال کشمیر کے راجہ شاخ مل کا خاندان تھا۔ عباسیان ہند 1819ء میں مصنف نجم الدین ثمرقندی نے صفحہ نمبر 211 میں لکھا ہے کہ سپہ سالار غیاث الدین ضراب شاہ کے اکلوتے فرزند حضرت غئی محمد اکبر خان عباسی کے ہاں 5 بیٹے کنور خان، ثناء ولی خان، سردار خان، سالم خان اور مولم خان ہوئے جو کہ ڈھونڈ، جسکم، سراڑہ، گہیال اور تنولی عباسی قبائل کے جدامجد ہیں۔
مفتی نجم الدین ثمرقندی اپنی کتاب عباسیان ہند 1819ء میں مزید لکھتے ہیں کہ یہ بات مصدقہ ہے کہ یہ بنو عباس ابن عبدالمطلب رض ہی ہیں۔ غیاث الدین ضراب شاہ کی اولاد میں مذہب کا رجحان دیگر قبائل سے زیادہ ہے، یہ اپنے نسب پر فخر کرتے ہیں۔ مہمان نواز، غم خوار ، کشادہ دل اور حیا کرنے والے ہیں۔ یہ شفیق اور مہربان ہیں۔ سادہ لباس ہیں مگر غیرت مند، غصے کے تیز اور انتہا کے جنگجو ہیں۔ انکا جدامجد غیاث الدین ضراب شاہ المعروف ضراب خان، محمود غزنوی کے ہمراہ ھرات، خراسان سے دہلی، ہندوستان آیا اور دہلی سے سرینگر، کشمیر عرب کندی کے حکم پر وارد ہوا۔ سرینگر کے راجہ نے اسے قدیمی پونچھ، کشمیر میں جاگیر عطا کی تھی اور اس نے وہیں مستقل سکونت اختیار کی اور اسکی قبر کہوٹہ میں واقع ہے۔ مری، کہوٹہ، ہزارہ، آزاد کشمیر میں آباد عباسی اسی کی اولاد ہیں۔
*باحث و کاتب*
اسامہ علی عباسی
نقیب الاشراف العباسیین شمالی پاکستان
فاضل نقابت الاشراف العباسیین الھاشمیین عراق
فاضل نقابت الاشراف الحسنیه الکیلانیه عراق
آرٹیکل تالیف اول بالتاریخ اپریل 2022ء
تالیف دوم بالتاریخ جنوری 2023ء