اکمل سومرو لاہور
پارلیمانی جمہوریت کی پسپائی اور کم زوری، پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت کا نتیجہ ہے۔
مشرف دور تک، قومی جمہوری سیاسی فیصلوں کا مرکز صرف مقتدرہ تھی اور پارلیمان کو محض علامتی حیثیت حاصل تھی ، مقتدرہ پر مسلسل تنقید نے ، غیر پارلیمانی افراد کو حکمت عملی تبدیل کرنے پر آمادہ کیا ۔ پارلیمان کی ایک رسّی پہلے صرف مقتدرہ کے پاس تھی ، ن لیگ کے آقا نواز شریف، پیپلز پارٹی کے سرپنج آصف علی زرداری اور پی ٹی آئی کے آفاقی رہنما عمران خان کی سیاسی ناعاقبت اندیشی نے، پارلیمان کی دوسری رسّی عدالتوں کے ہاتھوں میں تھما دی ہے۔
مقتدرہ قومی سیاست کا فیصلہ اب براہ راست خود کرنے کی بجائے، عدالتوں کے ذریعے کراتی ہے۔ موقع و محل کے مطابق کبھی خود رسی کھینچ دیتی ہے تو کبھی عدالت کے ذریعے سے اوندھے منہ گرا دیتی ہے۔ چوں کہ ریاست پاکستان کے تین آئینی اداروں میں عدلیہ بھی شامل ہے لہذا عدلیہ کے تمام سیاسی فیصلوں کو بھی دستوری حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
تینوں سیاسی جماعتوں کی سرکردہ لیڈر شپ کے سیاسی ضمیر کو یہ ادراک حاصل ہے کہ عدالتوں کے ذریعے سے اب پارلیمانی جمہوریت پر قبضہ کیا گیا ہے، لیکن کیا کریں ہر سیاسی جماعت اپنے گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے مقتدرہ کو بذریعہ عدالت اپنا کاندھا پیش کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ ایک برس قبل تک، یہ کاندھا پی ٹی آئی مہیا کرتی تھی، اب یہی کاندھا نواز شریف اور زرداری پیش کر رہے ہیں۔ گویا، پارلیمانی جمہوریت کی سیاست محض رسّہ گیری بن کر رہ گئی ہے۔
خواجہ سلمان رفیق کا کاغذی دبنگ سٹائل، احسن اقبال کی سقراطیاں، بلاول بھٹو کی سیاسی دھمالیں اور عمران خان کے برجستہ جملے بازیاں اسٹیج ڈراموں کی چغدوں سے زیادہ چنداں کوئی اوقات نہیں رکھتی۔ تین روز قبل خواجہ سلمان نے پھر دہرایا کہ ہماری جماعتوں میں جمہوریت نہیں اور وہ یہ تکرار مسلسل آمریت زدہ ن لیگ کی گود میں بیٹھ کر کرتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی سیاسی بقاء اسی گود کے سہارے ہے۔ تو پھر قوم کو دھوکہ کیوں؟
ایوب خان نے ایبڈو کے ذریعے سیاست دانوں کو نااہل کیا تھا تو اب وہی مقتدرہ عدالتوں کے ذریعے سے نا اہلی کی تلوار سیاست دانوں کی گردن پر چلاتی ہے۔ پارلیمان کے سیاسی فیصلوں کو عدالتیں جوتی کی نوک پر رکھ کر کوڑے کے ڈھیر میں اٹھا پھینکتی ہیں اور قوم یہ تماشہ آئے روز دیکھتی ہے۔
ملک کے 6 کروڑ ووٹرز جن قومی نمائندوں کا انتخاب کر کے پارلیمان کی بالادستی کے لیے بھیجتے ہیں، وہی نمائندے خاندانی لمیٹڈ کمپنیوں کے سربراہان کے آگے سرنگوں ہو کر سرینڈر کرتے ہیں اور نتیجتاً مقتدرہ قومی گردنوں پر اپنی سواری کو استحکام بخشتی ہے۔ جن آڈیوز، ویڈیوز پر پیپلز پارٹی، ن لیگ و دیگر جماعتوں کے متعلقین محوجشن ہیں، کل کو یہی جشن پی ٹی آئی کے متعلقین منائیں گے۔
موجودہ سیاسی ڈھانچہ درحقیقت قومی جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور یہ ڈھانچہ قومی مقتدرہ، اینگلو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کیلئے تر نوالہ ہے۔ یہ ڈھانچہ جب تک رہے گا یوں پارلیمانی جمہوریت لاہور کی ہیرا منڈی کا منظر پیش کرتی رہے گی اور قومی سوال زمین بُرد کیا جاتا رہے گا۔