Skip to content
تاریخ اسلامیہ میں یہ واقعہ بڑی دلچسپی کا حامل ہے جس میں فقط ایک مسلمان عورت کی پکار پر خلافت عباسیہ کے خلیفہ امیر المومنین معتصم بالله عباسی نے سلاطین روم پر جنگ کی یلغار کردی جسکو تاریخ میں جنگ عموریہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ معتصم بالله، مشہور زمانہ خلیفہ ہارون الرشید عباسی کا بیٹا تھا جو اپنے بھائی مامون الرشید کے بعد مسند خلافت پر براجمان ہوا۔ معتصم بالله کا اصل نام ابو اسحاق محمد بن ھارون الرشید تھا اور اسکی پیدائش 796 عیسوی کو خلد محل، بغداد اور وفات 842 عیسوی کو سامراء، عراق میں ہوئی۔ اسکا لقب *معتصم بالله* تھا جسکے معانی ہیں *جو خدا کی پناہ میں* ہو۔ یہ خلافت عباسیہ کا آٹھواں خلیفہ تھا جس نے 833 عیسوی سے لیکر 842 عیسوی تک خلافت و حکمرانی کی۔ تاریخ طبری میں مصنف نے لکھا یے کہ معتصم بالله ایک رحم دل، خوبصورت، جلد راضی ہونے والا، سخی، صحت مند پہلوان اور شوخ مزاج لڑکا تھا جو مامون الرشید کے بعد مسند خلافت پر براجمان ہوا۔ اسکے دور میں رومیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر فتوحات ہوئی جس میں سے بعض مہمات کو اس نے بذات خود سپہ سالار کی حیثیت سے لیڈ کیا تھا۔ جنگ عموریہ کے واقعے کی تفصیل اس عربی جملے سے نظر آتی ہے جسکو معتصم بالله نے غیرت کھا کر جلال کی حالت میں ادا کیے تھے اور ان کلمات کو اپنے فعل سے سچ ثابت بھی کیا۔
*لبیک ایتھا الجاریة لبیک، ھذا المعتصم بالله اجابک، لبیک یا اختاہ*
*اے لونڈی، جان لے کہ معتصم تیری خدمت کو حاضر ہوا، میری بہن جان لے کہ تمہارا بھائی تمہاری مدد کو پہنچا*
تاریخ اسلامیہ میں اس واقعے کے راوی یعقوب بن جعفر ہیں جو اس واقعے کو بیان کرتے ہیں کہ عموریہ کی جنگ میں وہ عباسی خلیفہ “معتصم بالله” کے ساتھ تھے۔ عموریہ کی جنگ کا پس منظر بھی انتہائی دلچسپ ہے۔ ایک پردہ دار مسلمان خاتون عموریہ کے بازار میں خریداری کے لیے گئی تو وہاں ایک عیسائی دوکاندار نے اسے بےپردہ کرنے کی کوشش کی اور اس سے نازیبا حرکات کرنے کی کوشش کی۔ جب عورت کیطرف سے مزاحمت ہوئی تو اس عیسائی دوکاندار نے اس خاتوں کو ایک تھپڑ رسید کیا۔ بےبسی کے عالم میں اس خاتون کی زبان سے یہ کلمات ادا ہوگئے
”واہ معتصما۔۔۔۔۔۔!!!! “
“ہائے خلیفہ معتصم ! میری مدد کرو”.
یہ سن کر اس عیسائی نے اس عورت کے چہرے پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید کیا جس سے وہ تلملا اٹھی- سب عیسائی دوکاندار اس عورت پر ہنسنے لگے اور اس عورت کا مزاق اڑانے لگے کہ سینکڑوں میل دور سے عباسی خلیفہ معتصم تمہاری آواز کیسے سنے گا؟؟؟؟؟
اس بازار میں ایک مسلمان لڑکا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے خود کلامی کے انداز میں کہا کہ : میں اس کی آواز کو معتصم بالله عباسی تک ضرور پہنچاؤں گا۔ وہ بغیر رکے دن رات سفر کرتا ہوا عباسی خلیفہ معتصم تک پہنچ گیا اور اسے یہ تمام ماجرا سنایا۔
یہ سننا تھا کہ عباسي خلیفہ معتصم بالله کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ عباسي خلیفہ معتصم بالله نے اس آدمی سے دریافت کیا اور پوچھا کہ :
“عموریہ کس سمت میں ہے؟”
اس آدمی نے عموریہ کی سمت اشارہ کرکے بتلایا کہ عموریہ اس طرف ہے- عباسي خلیفہ معتصم بالله نے جلال کی حالت میں اپنا رخ عموریہ کی سمت موڑا اور بلند آواز سے کہا:
*لبیک، ایتھا الجاریة لبیک، ھذا المعتصم بالله اجابک، لبیک یا اختاہ*
*میں تیری آواز پر حاضر ہوں اے لونڈی، معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے، میری بہن میں حاضر ہوں*۔
اسکے بعد راوی کہتا ہے کہ خلیفہ معتصم نے عموریہ کے لیے بارہ ہزار جنگی گھوڑے تیار کروائے اور ایک لشکر جرار لےکر سلطنت روم کے علاقے عموریہ کو پہنچا۔ مسلمانوں کی آمد سے خوفزدہ ہو کر رومی قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے تو آپ نے اس کا محاصرہ کرلیا- جب اس محاصرے کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے وزراء سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے کہا: “ہمارے خیال کے مطابق آپ عموریہ کو انگور اور انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کرسکتے ہیں”. اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا، اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں گزرا-
خلیفہ معتصم بالله عباسی رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ چپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ اس بارے میں ان کی چہ مگوئیاں کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں- خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلین تیار کررہا تھا- وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بد صورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا چلاتا جاتا- لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹا پلٹتا اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا- اچانک غلام نے بڑے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا:
*فی راس المعتصم*
*یہ معتصم کے سر پر*
لوہار نے غلام سے کہا: تم نے برا کلمہ کہا ہے- اپنی اوقات میں رہو- تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ المسلمین و امیر المومنین معتصم بالله عباسي کے بارے میں ایسا کلمہ کہو-
غلام کہنے لگا: ” تمہاری بات بلکل درست ہے مگر ہمارا خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہو گیا ہے- اس کے پاس اتنی فوج ہے، تمام تر قوت اور طاقت ہونے کی باوجود حملہ میں تاخیر کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے- الله کی قسم! اگر خلیفہ مجھے یہ ذمہ داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا”-
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر عباسی خلیفہ معتصم بالله کو بڑا تعجب ہوا- پھر اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہوگیا- صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم بالله کی خدمت میں حاضر کیا-
خلیفہ نے پوچھا:
” رات جو باتیں میں نے سنی ہیں، ان باتوں کی کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟
غلام نے جواب دیا:
“آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے- اگر آپ جنگ میں مجھے سپہ سالار بنادیں تو مجھے امید ہے کہ الله تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروا دے گا-“
خلیفہ نے کہا: “جاؤ میں نے فوج کی سپہ سالاری و کمان تمہیں سونپ دی-“
چنانچہ الله تعالی نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں فتح کرا دیا اور پھر عباسي خلیفہ معتصم بالله شہر کے اندر داخل ہوا- اس نے فوراً اس آدمی کو تلاش کیا جو اس عورت کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا اور اس سے فرمایا: جہاں تونے اس عورت کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو- وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور عورت کو اس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی خدمت میں حاضر کیا- اس وقت خلیفہ نے اس عورت سے کہا:
*یا جاریه! ھل اجابک المعتصم؟؟؟؟؟؟؟*
*لڑکی، بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟*
اس لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلایا اور اب اس عیسائی کی تلاش ہوئی جس نے اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا- جب اس کو پکڑ کر لایا گیا اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو۔ اس کے بعد بھرے بازار میں اس عیسائی دوکاندار کا سر قلم کردیا گیا اور معتصم بالله کے تاریخی الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں کہ مسلمان کبھی بےغیرت نہیں ہوسکتا اور ہر مسلمان عورت میری بہن کیطرح ہے جو اسکی طرف نگاہ بھی اٹھائے گا معتصم اسکی آنکھیں نکال دے گا۔
الله رب العزت سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو آج بھی معتصم بالله عباسي جیسے حکمران نصیب کرے اور ہمارے حکمرانوں کے اندر بھی وہ جذبہ ایمانی و جزبہ غیرت پیدا کرے تاکہ اپنی رعایا کے حقوق کے محافظ و امین بنیں۔
(بحواله محاضرات الابرا: جلد دوم 2/63، قصص العرب)
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں