Skip to content
:جاوید چوہدری
شاہد خاقان عباسی کی قصہ گوئی عروج پر تھی‘ وہ سرد آواز میں بولے ’’مسجد سے واپسی پر ہم نے سراجیوو میں بربادی دیکھی‘ عمارتیں گری ہوئی تھیں‘ دیواروں میں گولیوں اور گولوں کے چھید تھے‘ ہمارے کانوائے پر بھی فائرنگ ہوتی رہی لیکن ہم بکتر بند گاڑی کی وجہ سے محفوظ رہے۔
ہم نے راستے میں فٹ بال گرائونڈ اور اولمپکس اسٹیڈیم دیکھا‘ یہ دونوں قبرستان بن چکے تھے‘ ان میں 30ہزار قبریں تھیں‘ عزت بیگوچ نے بتایا فٹ بال گرائونڈ میں شہداء دفن ہیں جب کہ اسٹیڈیم میں عام لوگ‘ ہمیں بتایا گیا بوسنیا کے لوگ صرف جنگ میں مرنے والے فوجیوں کو شہید کہتے ہیں جب کہ عام شہریوں کو جاں بحق یا مردہ سمجھا جاتا ہے چناں چہ فوجی شہداء کو فٹ بال اور عام شہریوں کو اسٹیڈیم میں دفن کیا جاتا ہے۔
شہر میں کوئی عمارت‘ کوئی گھر سلامت نہیں تھا‘ ہر طرف قحط‘ زخم اور ویرانی تھی‘ یہ مناظر دیکھ کر میاں نواز شریف کی آنکھیں بھر آئیں‘ ہم تینوں بھی مغموم ہو گئے‘ ہم بہرحال جیسے تیسے ہیڈ کوارٹر میں واپس پہنچے‘ میاں نواز شریف نے عزت بیگوچ کو ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کا چیک پیش کیا‘ اس نے اٹھ کر چیک وصول کیا اور ہم سے کہا‘ آپ مہربانی فرما کر ہمیں مجاہدین نہ بھجوائیں‘ آپ کے لوگ اس سردی میں نہیں لڑ سکتے۔
ہم لڑنے کے لیے کافی ہیں‘ ہمیں صرف پیسے‘ ہتھیار اور خوراک چاہیے‘ آپ ہمیں صرف یہ بھجوائیں‘ ہم نے اس سے وعدہ کر لیا‘ عزت بیگوچ نے ہمیں ایئرپورٹ بھجوانے کے لیے یو این کے کمانڈر سے بات کی‘ وہ برطانوی تھا‘ وہ بڑی مشکل سے راضی ہوا اور اس نے ہمارے لیے آرمر گاڑی بھجوا دی‘ گاڑی میں نارویجن سولجر تھے‘ میں نے زندگی میں اتنے خوف زدہ لوگ نہیں دیکھے‘ ان کی نیلی آنکھوں میں موت کا خوف تیر رہا تھا اور سرخ چہروں پر موت کی زردی تھی‘ وہ ہمیں بکتر بند گاڑی میں پھنسا کر ایئرپورٹ کی طرف دوڑ پڑے۔
گاڑی راستے میں لاشیں روندتی ہوئی جا رہی تھی‘ بکتر بند سے ٹھک ٹھک اور پھس پھس کی آوازیں بھی آ رہی تھیں‘ میاں نواز شریف نے مجھ سے پوچھا‘ عباسی صاحب یہ آوازیں کیسی ہیں؟ میں نے انھیں بتایا‘ میاں صاحب ہم پر گولیاں اور مارٹر برس رہے ہیں‘ یہ ان کی آوازیں ہیں‘ میاں صاحب نے حیرت سے پوچھا کیا ہم پر گولیاں چل رہی ہیں؟ میں نے جواب دیا جی ہاں‘ ہم اس عالم میں برستی گولیوں میں ایئرپورٹ پہنچ گئے‘ نارویجن سولجر ہمیں ایئرپورٹ پر پھینک کر واپس چلے گئے۔
ایئرپورٹ پر کسی ایئر لائین کا عملہ تھا اور نہ سیکیورٹی‘ ایئرپورٹ کھلا پڑا تھا‘ رن وے کی سائیڈز پر مورچے تھے اور ان میں سولجر رائفلیں اور توپیں لگا کر بیٹھے تھے‘ ہم اب یہاں سے نکلیں گے کیسے؟ ہم میں سے کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا‘ ہم وہاں گھنٹوں بھوکے پیاسے بیٹھے رہے‘خوش قسمتی سے اس دوران یو این کا ایک جہاز اترا‘ میں نے سب سے کہا دوڑیں‘ ہم نے یہ جہاز پکڑنا ہے‘ جہاز صرف دو منٹ کے لیے اترا تھا اور اس میں سے کرین کے ذریعے سامان اتارا جا رہا تھا‘ ہم دوڑ کر اس میں سوار ہو گئے۔
ہمارے گھستے ہی جہاز کے دروازے بند ہوئے اور یہ رن وے پر دوڑنے لگا‘ یہ جہاز کس کا تھا اور یہ کہاں جا رہا تھا؟ ہم نہیں جانتے تھے‘ ہماری قسمت اچھی تھی زیگرب سراجیوو سے قریب ترین ایئرپورٹ تھا اور یہ ایک گھنٹہ بعد وہاں پہنچ گیا‘ ہم نے وہ رات دوبارہ زیگرب میں بسر کی‘ اسلامک سینٹر سے 80 ڈالر کی ایک مرغی خریدی‘ ٹھٹھرتے سسکتے ہوئے وقت گزارا اور اگلے دن ہماری واپسی کا سفر شروع ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’یہ ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کس کے تھے؟‘‘ یہ بولے ’’یہ میاں شریف کی ذاتی رقم تھی۔‘‘
میں نے ان سے پوچھا ’’کیا میاں نواز شریف کو لندن کے فلیٹس آپ نے خرید کر دیے تھے؟‘‘ یہ بولے ’’ہرگز نہیں لیکن انھیں مشورہ میں نے دیا تھا‘ ہم لوگ اس وقت اپوزیشن میں تھے‘ قومی اسمبلی میں ہمارے 35 ایم این اے تھے‘ میاں صاحب اپوزیشن لیڈر تھے اور بے نظیر بھٹو نے شریف فیملی کو تنگ کرنا شروع کر دیا‘ مجھے ایک دن میاں صاحب نے بلا کر پوچھا‘ میرے چار بچے ہیں‘ میں چاہتا ہوں میں ان کے نام پر باہر چار پراپرٹیز لے لوں‘ کون سا ملک بہتر رہے گا‘ میں نے انھیں بتایا۔
میں نے دنیا کے کسی ملک میں پراپرٹی نہیں خریدی تاہم میرے چند دوستوں نے ضرور خریدی ہے اور یہ لندن کی بہت تعریف کرتے ہیں‘ آپ اسے ٹرائی کر لیں‘ میاں صاحب نے خاموشی سے میری بات سن لی‘ میرا صرف اتنا کنٹری بیوشن تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’اور ڈائیوو کمپنی کے ساتھ آپ کا کیا تعلق تھا؟‘‘ یہ بولے ’’ڈائیوو کے مالک کم ووچونگ کے خاندان کا ایک فرد امریکا میں میرا کلاس فیلو تھا لیکن میرا اس فیملی کے ساتھ رابطہ موٹروے مکمل ہونے کے بعد 1997میں ہوا تھا۔
1997 میں کم ووچونگ پاکستان آیا‘ وزیراعظم کے ساتھ اس کا ڈنر تھا‘ اس نے اس ڈنر میں میاں صاحب سے کہا‘ میں شاہد خاقان عباسی سے ملنا چاہتا ہوں‘ یہ میرے …کے کلاس فیلو رہے ہیں‘ میاں نواز شریف کو اس وقت میرے اس ریلیشن کا پتا چلا اور یہ حیران بھی ہوئے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا شریف فیملی نے ڈائیوو سے کک بیکس لی تھیں؟‘‘ شاہد خاقان عباسی کا جواب تھا ’’میں 35 سال سے میاں نواز شریف کو جانتا ہوں‘ میں حلف دے سکتا ہوں نواز شریف نے کسی سرکاری سودے میں کک بیک نہیں لی‘‘
میں نے پوچھا ’’میں ڈائیوو کمپنی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں‘‘ ان کا جواب تھا ’’میں نے ڈنر کے دوران کم ووچونگ کو نواز شریف کی بہت خوشامد اور عزت کرتے دیکھا اور میراتجربہ ہے اگر کسی نے کسی کو پیسے دیے ہوں تو وہ کک بیکس لینے والوں کی اتنی عزت نہیں کرتا چناں چہ یہ الزام غلط بلکہ لغو ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ نے اپنے کلاس فیلو سے پوچھا تھا؟‘‘ یہ بولے ’’ہاں میں نے پوچھا تھا اور اس کا جواب بھی نا تھا اور اگر اس نے کوئی گڑ بڑ کی ہوتی تو اس کا جواب اتنا واضح نہ ہوتا‘‘
میں نے ان سے پوچھا ’’کیا یہ درست ہے 2000 میں سعودی آرمی چیف نے آپ کو جنرل پرویز مشرف سے رہا کرایا تھا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میرے سسر جنرل محمد ریاض ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں‘ یہ 1979 میں آن ڈیوٹی انتقال کر گئے تھے‘ جنرل ریاض جوانی میں امریکا میں آرٹلری کورس کر رہے تھے وہاں ان کے ساتھ سعودی آفیسرز بھی تھے‘ یہ انھیں کورسز میں ہیلپ کرتے تھے‘ ان میں سے ایک افسر 2000 میں سعودی عرب کا آرمی چیف بن گیا‘ یہ جنرل پرویز مشرف کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر آیا اور میرے سسرال وزٹ پر گیا۔
میری ساس سے ان کی ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس سے میرا ذکر کیا‘ وہ سیدھا جنرل پرویز مشرف کے پاس گیا اور اس سے کہا‘ میں شاہد خاقان عباسی کو اپنے جہاز میں اپنے ساتھ لے کر جائوں گا‘ آپ اسے فوری طور پر رہا کریں‘ جی ایچ کیو میں سچویشن پیدا ہو گئی‘ ہم لوگ اس وقت اٹک قلعے میں بند تھے‘ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف کا جہاز ڈائی ورٹ کرنے کا حکم میں نے دیا تھا اور میں نے بعدازاں اپنا ’’جرم‘‘ تسلیم بھی کر لیا تھا۔
میں مرکزی مجرم تھا لیکن جنرل مشرف سعودی آرمی چیف کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لہٰذا آئی ایس آئی کے آفیسر جیل میںمیرے پاس آئے‘ یہ مجھے نکالنا چاہتے تھے مگر میں نے انکار کر دیا‘ یہ لوگ اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے سعودی آرمی چیف کے نام خط لکھ کر ان کے حوالے کیا‘ میں نے خط میں اس سے درخواست کی میں اپنی مرضی سے جیل میں بند ہوں اور اگر مجھے آپ کی مدد کی ضرورت پڑی تو میں آپ سے دوبارہ رابطہ کروں گا اور یوں یہ معاملہ ٹل گیا‘‘
میں نے پوچھا ’’آپ کی سفارش پھر کس نے کی؟‘‘ یہ بولے ’’میں‘ شہباز شریف اور غوث علی شاہ لانڈھی جیل میں بند تھے‘9 دسمبر2000 کی شام آئی ایس آئی کے لوگ میاں شہباز شریف کو لینے آئے‘شہباز صاحب نے جاتے وقت غوث علی شاہ کا سیل کھلوایا‘ یہ رو رہے تھے اور انھوں نے اپنا سر غوث علی شاہ کے قدموں میں رکھ دیا‘ یہ ان سے بہت شرمندہ تھے‘ بہرحال یہ چلے گئے اور پیچھے میں اور غوث علی شاہ رہ گئے‘ ہم کھانا اکٹھے کھاتے تھے‘ یہ بھی روز خاموش رہتے تھے اور میں بھی‘ سچی بات ہے میں ان سے آنکھ نہیں ملا پاتا تھا۔
میں سوچتا تھا ہم پنجابیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا ؟ انھیں جیل میں چھوڑ کر چلے گئے‘یہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے؟ شاہ صاحب کے اس دوران آئی ایس آئی کے ساتھ مذاکرات شروع ہو گئے‘ انھوں نے مجھ سے مشورہ کیا‘ مجھے کہا جا رہا ہے آپ دس سال سیاست نہ کرنے کا حلف نامہ دے دیں‘ ہم آپ کو چھوڑ دیتے ہیں‘ میں نے انھیں کہا ‘آپ پچاس سال لکھ کر دے دیں مگر اس عقوبت خانے سے نکلیں‘ یہ ایک دن سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔
میں سمجھا ان کی ڈیل ہو گئی ہے لیکن چند دن بعد پتا چلا انھیں ایم پی اے ہاسٹل کے سرونٹ کوارٹر میں گٹر کے پانی میں قید کر دیا گیا ہے‘ یہ نیب کا خوف ناک سیل تھا‘ میں نے اپنی ہمشیرہ سعدیہ عباسی کو فون کیا‘ یہ چوہدری شجاعت کے پاس گئیں اور چوہدری صاحب نے فوراً فون کر کے انھیں سیل سے بھی نکلوایا اور پھر ڈیل کرا کر انھیں ملک سے باہر بھجوادیا‘ چوہدری صاحب ایک شان دار انسان ہیں‘ میں جتنا عرصہ جیل میں رہا یہ ہر ہفتے میرے گھر جا کر میرے گھر والوں کو تسلی دیتے تھے‘ میں نے پوچھا ’’پھر آپ کی سفارش کس نے کی تھی؟‘‘
یہ قہقہہ لگا کر بولے ’’میرے سفارشی میجر جنرل راشد قریشی تھے‘ ان کی بیگم میری بہن کی کلاس فیلو رہی تھی‘ اس نے ان کی بیگم سے رابطہ کیا‘ بیگم نے جنرل راشد شریف سے بات کی اور راشد قریشی نے جنرل پرویز مشرف کو راضی کر لیا‘ جنرل مشرف کے ساتھ میرا ایک اور تعلق بھی تھااور وہ تعلق بھی اس مشکل وقت میں کام آیا۔‘‘
اگر آپ کو کسی مخصوص خبر کی تلاش ہے تو یہاں نیچے دئے گئے باکس کی مدد سے تلاش کریں