آئینی ایک خوبصورت ڈیزائن ہم سب مانتے ہیں، بازار

پنجاب پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست اور ججمنٹ کیسز کی رائے شماری کے دوران انتخابات کے مقابلے بازار آف پاکستان نے ریکس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین ایک خوبصورت دستاویز ہے جسے ہم سب مانتے ہیں۔

اے آر وائی نیوز کےمطابق عدالت میں پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی رائے ثانی درخواست اور ریویو اینڈ جج کیسز پر سماعت کریں چاندی بازار عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اعجاز الاحسن اور منظر منیب اختر پر تین رکنی بینچ نے عدالت کی جس میں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر دلائل دیے نمائیندے نے ریمارکس دیے ہیں کہ آئین پاکستان ایک خوبصورت منظر ہے۔ سب مانتے عدالت عظمیٰ نے فریق منگل تک ملتوی کردی۔

عدالت کا آغاز ہوا تو ماڈل پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر استفسار سے کہتا ہے کہ عدالتی رائے ثانی کے نئے قانون پر آپ کا کیا موقف ہے؟

تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ اس معاملے سے متعلق قانون کی مخالفت کی اور اپنے موقف کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے پر نئے آئین سے متصل اور پریکٹس اور پرجر قانون کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت نے اس لاگ سے پہلے عدالت سے دوسرے قانون سے متعلق قانون بنایا، اس پر لاگو کیا گیا اس پر لاگو کیا گیا، نئے قانون پر کوئی بھی نظر ثانی دائر نہیں کرتا، کمیشن پہلے ہی دوسرا دائرہ اختیار کر لے۔ میرے مطابق عدالت انتخابات سے متعلق کیس سنٹرل اور دلائل مکمل ہونے کی وجہ سے دوسرے کیس سے مشروط کرامت ہے۔ یقین ہے عدالت نئے ایکٹ کے آئین سے متصادم ہونے کے بعد سے

ان کا کہنا تھا کہ ایک ریویو سے 5 منٹ میں منظور کر لیا گیا، یہ کسی قانون پر بحث کے لیے منظور کرایا، کمیٹی کو بھی نہیں جا سکتا، عدلیہ کے اختیارات کم نہیں جا سکتے۔

علی کے دلائل سن کر انتخابی امیدوار نے کہا کہ ہمارے پاس نئے نظر ثانی قانون کے لیے کچھ درخواستیں آئی ہیں، نظر ثانی ایک ظفر کو اسٹیج پر ہی پیش کیا گیا ہے تو اُن کے جنرل کو نوٹس لینے کے خلاف نوٹس، نظر ثانی ایکٹ۔ پر نوٹس کے بعد انتخابات کے ایک کیس کے تحت بینچ سنے

انتخابی امیدوار عمر عطاال نے کہا کہ انتخابات کے کیس پر گزشتہ سماعت پر امیدوار وکیل سے سوال کیا گیا تھا کہ اکتوبر 8 میں انتخابات کی تاریخ ہے لیکن اس کے اختیارات سے کمیشن کے وکیل نے جواب دیا۔ یہ ایک آئینی سوال اور آئین کی ایک خوبصورت شکل ہے جسے ہم سب مانتے ہیں۔

پی آئی اے کے وکیل نے کہا کہ میں پارلیمنٹ کے ججز کو تسلیم کرتا ہوں کہ سب نے آئین کے دفاع کا حل نکالا، آرٹیکل بڑا واضح ہے اور میرے لیے ہر قابل احترام جج کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔ کا کام کر رہے ہیں، میں کبھی کسی جج پر اعتراض نہیں کرتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 14 مئی کی رات 12 بجے ایک آئینی مراقبہ پر، آئین کی موت کے 2 مریض ہیں، ایک وجہ سے 90 روز میں انتخابات کے قانون کو فالو نہیں کیا گیا اور دوسری وجہ۔ ذمہ دار کے حکم پر انتخابات پر عمل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ دن آئین کے قتل کی یاد دلتا ہے۔ اس وقت ملک کے 2 پارلیمانی، پارلیمانی اور پارلیمانی پارٹی کے اختیارات کے بغیر، اس وقت آئین پر کوئی عمل نہیں، عدالت کے انتخابات کا فیصلہ ثانی کا ری ایکٹ کے لیے ریاست تک روک حکومت، نظر ثانی کیس میں تقریباً مکمل طور پر ہو گا۔ کیس مکمل کرنا

تماشا منیب نے کہا کہ ریویو لاگو ہوتا ہے تو انتخابی کمیشن کے وکیل کو لارجر بین دوبارہ دلائل کا آغاز کرنا۔ انہوں نے سوال کیا کہ عدالت کس طرح پنجاب انتخابات کیس میں عدالتی فیصلہ کرے گی؟ اور کس طرح ہم لاگ پر لاگو انتخابات ریویو ایکٹ پنجاب نظر ثانی کیس میں نہیں ہوتا؟

بیرسٹر ظفر نے استدعا کی کہ عدالت کے کیس کی سماعت ملتوی نہ ہونے کے باوجود علی کی رائے ثانی کو مکمل کرنے کی اجازت دے۔ نئے قانون کی شق 5 کا اطلاق پنجاب کے انتخابات پر نہیں ہوتا، مجھے امید ہے کہ عدالت دونوں کو قرار دے گی، جس پر عدالت منیب نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات پر قانون کے تحت سنا جائے۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ جی میں چاہتا ہوں کہ قانون کے تحت سناتا ہوں۔

ٹیم منیب اختر نے کہا کہ یہ قانون موجودہ کیس پر لاگو نہیں ہوتا تو آپ کو مطمئن کرنا۔

موجودہ بازار نے کہا ہے کہ موجودہ مارکیٹ میں موجودہ صورت حال میں موجود ہے تو پہلے ثانی کیعت پر دلائل دے گا۔ یہ بالکل نیا کیس نہیں ہے۔ 14 مئی کو انتخابات کا راستہ قومی مسئلہ ہے، اس کو واپس لینا ممکن نہیں، 14 مئی کا فیصلہ اصولی فیصلہ ہے کہ 90 دن آگے نہیں جا سکتا۔

روزنامہ دنیا نے مزید کہا کہ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں 90 روز سے نظر انداز ہوئے ہیں اور اب بھی کہاں ہیں اور 90 کی مدت کو کیا جا سکتا ہے۔ 90 روز کی مدت کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اختیارات کمیشن کے وکیل کو 8 اکتوبر کی تاریخ پر اعتماد ہونے کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ جب آپ نے حق رائے دہی سے استدلال کیا کہ یہ تاریخ دینا کمیشن کا کام ہے۔ اس موقع پر بھی جوابی خط بھی سامنے آیا جو کمیشن کی نا اہلیت کو ظاہر کرتا ہے۔

عدالت نے اٹکارنی جنرل آپریٹر دیگر کو نوٹس جاری کر دیا اور پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس اور ریو اینڈ منٹ کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کر کے کہا

تبصرے

Source link

اپنا تبصرہ بھیجیں