انار اور مچھلی (ایران کی لوک کہانیاں) –

ایک ندی تھی اور اس کے رنگ انار کا ایک درخت۔ درخت پر کچھ انار مار رہے تھے اور ندی میں کچھ مچھلیاں بھی دُمیں ہلاتی تبدیلی

زمین کے نیچے سے درخت کی جڑیں ندی میں پھوٹنے کے بدلے مچھلیوں نے کئی بار اناروں سے کہا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں نہیں ہیں لیکن انہوں نے سنی سنائی کر دی ہے۔ مچھلیوں نے فیصلہ کر لیا کہ درخت کی جڑیں چبا ڈالی جائیں گی۔ مچھلیوں کو جڑیں چبانا شروع کرنا

اناروں نے آسمان سر پر لیا کہ یہ کیا حرکت ہے؟ اب کی بار مچھلیوں نے سنی ان سنی کر کہا۔ اناروں نے سخت باتوں کی بات مچھلیوں نے کہا: جو کرنا، کر لیجی۔ اناروں نے آپ کو صلاح مشورہ کیا اور ایک انار سے خود کو ایک مچھلی پر گرا دیا۔ مچھلی کا سر پھٹ۔ خون بہنے لگا۔ ساری ندی سرخ ہو

مچھلیوں نے انار کو پکڑنے کے راستے اناروں نے احتجاج کیا کہ ہمارے ساتھ گرفتار کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ آخر ہم ایک ملک میں رہتے ہیں، جس کا کوئی قانون ہے، قاضی۔ ایک مچھلی نے کہا: کس نے حق دیا تھا کہ ہمارے گھر میں ٹانگیں لگائیں؟ ایک انار لگتا ہے کہ پانی صرف آپ کا پانی ہے؟ ہم بھی تو۔ ہم بھی اسی وقت موجود ہیں۔ مچھلیاں کہتی رہتی ہیں کہ تم اناروں نے جنم لیا۔ تم نے ہماری ساتھی بے چاری کا سر پھوڑ دیا۔

بات کسی طرف نہ لگی اور ان میں تُو تکار آخر کار قاضی کے پاس پیش ہونا فیصلہ ہونا۔ سر پھٹی مچھلی اور ہاتھ بندھا انار قاضی کے ہاں جا۔ قاضی کے پاس کئی مدعی بھی جمع ہیں۔ انہیں ہی قاضی کی رال ٹپکنے لگی اور اس نے کہا: آئیے آئے، کہ کیا مسئلہ ہے؟ دونوں نے اسے ماجرا موسیقی سنایا۔ قاضی صاحب نے کہا: آپ ذرا انتظار کریں، میں پہلے دوسرے لوگوں کے حق میں نمٹا لو۔

انار اور ننھی مچھلی ایک کونے میں جواب دے کر انتظار کرنا۔ قاضی کام ختم کر کے ان کے پاس آیا۔ اس نے دونوں کے منہ ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ بہت دلسا دیا اور پھر اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا: بیگم! توے پر خوب گھی ڈال کر چولھے پر ڈالا دو، دوپہر کو ہم مچھلی کھائیں اور ہاں سنو! یہ انار بھی لے لے، اس کا رس مچھلی پر چھڑکیں گے تو ہی مزہ آئے گا۔ انار اور مچھلی کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے انہوں نے ایک دوسرے سے کھسر پھسر کی کہ دیکھو تو ہم کس میں پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قاضی صاحب کی بہتیری منت سماجت کی کہ ہمیں کسی دوسرے بیگ سے کوئی شکوہ نہیں، مگر بیگم نے کہا: فیصلہ تو قاضی ہی کا ہے۔ مجھے تو اس پر عمل کرنا اور بس۔ اس نے اس مچھلی کو کھالیا اور اسے توے پر ڈالنا۔ مچھلی بے چاری ترپتی پھڑکتی رہی۔ پھر اس نے انار کو پکڑ کر اس کا رس لیا اور تلی ہوئی مچھلی پر چھڑک۔ قاضی اور اس کے بیوی بچوں نے خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔

خبر اناروں اور مچھلیوں تک بھی پہنچیں۔ وہ دکھ اور درد میں ڈوب گئے اور انہوں نے دونوں کا سوگ منایا۔ سوگ کے دن ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قاضی جب باہر نکلے تو کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک دوسرے کے حقوق سے معاہدہ کر لیا کہ ایک دوسرے کی خلاف ورزی نہیں کرنا ہے

(کتاب سفید پرندہ سے منتخب کردہ)

تبصرے

Source link

اپنا تبصرہ بھیجیں